نتائج کے 40 دن بعد بھی کابینہ کی عدم تشکیل غیر دستوری

محمود علی محض ربر اسٹامپ، چیف منسٹر کی مکمل اجارہ داری ، گورنر کو کانگریس قائد ڈی شراون کا مکتوب
حیدرآباد ۔ 22 ۔ جنوری (سیاست نیوز) کانگریس پارٹی نے تلنگانہ میں اسمبلی نتائج کے 40 دن گزرنے کے باوجود کابینہ کی عدم تشکیل کو دستور کی واضح خلاف ورزی سے تعبیر کیا اور گورنر ای ایس ایل نرسمہن کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے اس سلسلہ میں فوری مداخلت کی اپیل کی ۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ترجمان ڈی شراون نے آج میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے گورنر کو روانہ کردہ مکتوب کی نقل جاری کی اور کہا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کابینہ کی تشکیل کے سلسلہ میں کھلے عام دستور کی خلاف ورزی کر رہے ہیں لیکن گورنر خاموش تماشائی کا رول ادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ دستور کا تحفظ کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر کے ساتھ گورنر کی ملی بھگت ہے اور ریاست میں حکومت کے نام پر تماشہ کیا جارہا ہے ۔ ڈاکٹر شراون نے دستور کی دفعہ 164 (1A) کا حوالہ دیا اور کہا کہ کسی بھی ریاست میں اسمبلی ارکان کی مجموعی تعداد کا 15 فیصد کابینہ ہونی چاہئے۔ دستور میں اس بار کی بھی وضاحت کردی گئی کہ وزراء کی تعداد کم سے کم 12 ہو لیکن تلنگانہ میں چیف منسٹر کے علاوہ واحد وزیر کی حیثیت سے وزیر داخلہ کو شامل کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دستور کی دفعہ 163 (1) کے تحت کونسل آف منسٹرس گورنر کو مشورہ دینے اور انہیں دستوری فرائض کی انجام دہی میں مدد کرنے کی ذمہ داری رکھی ہے لیکن تلنگانہ میں پانچ ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک مکمل کابینہ تشکیل نہیں دی گئی ۔ سمن نے بتایا کہ وزیر داخلہ محمود علی کو 4 محکمہ جات الاٹ کئے گئے جن میں داخلہ ، اسٹامپ اینڈ رجسٹریشن ، ریلیف اینڈ ری ہیبلیٹیشن اور اربن لینڈ سیلنگ شامل ہیں جبکہ باقی تمام اہم قلمدان چیف منسٹر کے پاس ہے۔ شراون نے ریمارک کیا کہ محمود علی کو 4 محکمہ جات الاٹ کرنے کے باوجود وہ ربر اسٹامپ کی طرح ہیں اور وہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ انہیں معمولی ہوم گارڈ کے تبادلہ کا بھی اختیار نہیں ہے۔ تلنگانہ میں 33 محکمہ جات کے تحت 289 سرکاری ادارے ہیں اور صرف ایک شخص کیلئے ان تمام اداروں کی نگرانی اور فیصلے کرنا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر شراون نے کہا کہ درکار وزراء کی تعداد کے بغیر حکومت کی کارکردگی کو متاثر کیا جارہا ہے اور عوام کی بدخدمتی کی جارہی ہے جنہوں نے جمہوری الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے ٹی آر ایس کو ووٹ دیا۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ کی عدم تشکیل کے سبب حکومت اور گورنر کا رول ٹھپ ہوچکا ہے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ گورنر دستور کی خلاف ورزی پر کس طرح خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ آیا چیف منسٹر و گورنر کی ملی بھگت تو نہیں جس کے نتیجہ میں وہ اس معا ملہ میں وہ خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے اجلاس سے گورنر کے خطبہ میں بیروزگاری کے خاتمہ کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا جبکہ 30 لاکھ سے زائد بیروزگار نوجوان حکومت کی تائید کے بعد تقررات کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دلتوں کو تین ایکر اراضی اور ڈبل بیڈروم مکانات اسکیمات کا کوئی تذکرہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کونسل آف منسٹرس کا مطلب اجتماعی ذمہ داری ہے اور محض ایک یا دو افراد کو حکومت نہیں کہا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کی صورتحال سے جمہوریت اور دستور کیلئے سنگین بحران پیدا ہوچکا ہے ۔ لہذا گورنر کو چاہئے کہ وہ دستور کی دفعات 163 اور 164 کے تحت مداخلت کریں اور جنگی خطوط پر کابینہ میں توسیع کی ہدایت دیں۔