ناکام معاشی پالیسیاں

آگاہ نہیں ہیں جو ابھی ذوق ستم سے
بے تابی دل ان کو خبردار نہ کردے
ناکام معاشی پالیسیاں
ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے وعدہ کو پورا کرنے میں ناکام مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت کو اپنی ناکام معاشی پالیسیوں کا سبق کرناٹک میں مل چکا ہے ۔ کرناٹک میں مودی کے سحر کو دھکہ لگنے کی وجوہات کئی ہوسکتی ہیں ان میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مودی کی پارٹی نے دیہی رائے دہندوں کے لیے کچھ خاص کام نہیں کیا ، ملک کی ترقی کا نعرہ دینے والی حکومت دیہی علاقوں کی ترقی کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے ۔ کرناٹک میں اس ہفتہ رونما ہوئی صورتحال سے قبل مرکزی حکومت کے موقف کے بارے میں یہی خیال تھا کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار مل جائے گا لیکن وہ حکومت بنانے میں ناکام رہی ۔ اس کی وجہ مالیاتی سال 2018 میں پیش کردہ مرکزی بجٹ بھی ہوسکتی ہے ۔ اگرچیکہ اس سال کے بجٹ میں حکومت نے اپنے مستقبل کے عزائم کو مد نظر رکھ کر بعض مالیاتی فیصلے کیے تھے لیکن دیہی عوام کے لیے بجٹ فیصلے ناقابل فہم ثابت ہوئے اس کے علاوہ مہنگائی اور افراط زر میں اضافہ نے عوام کی روزمرہ کی زندگی اور اخراجات میں بڑا فرق پیدا کردیا ۔ کرناٹک کا الیکشن ہی مرکز کی مودی حکومت کی ناکامیوں کا آئینہ ثابت ہوا ۔ ان نتائج نے بی جے پی کی غیر یقینی صورتحال کو مزید نازک بنادیا ہے ۔ انتخابات سے قبل مودی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کو روک کر اب مابعد نتائج ان اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرتے ہوئے ملک کی معیشت کی کمر توڑنے کی کوشش کی ہے ۔ انتخابات کے موقع پر جو حکومت اپنے مفادات کی خاطر قیمتوں میں کمی لاتی ہے اور بعد میں اضافہ کیا جاتا ہے تو اس کے خراب نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ ہندوستان کی دیہی آبادی ملک کی آبادی کا 68 فیصد ہے ۔ 1.3 بلین عوام کی آبادی والے اس ملک کے لیے معاشی پالیسیاں بنانے کے لیے سیاسی مفادات ملحوظ نہیں ہونا چاہئے ۔ لیکن مودی حکومت نے دیہی عوام کی ضروریات اور شکایات پر توجہ نہیں دی ۔ مرکز کی حکمراں پارٹی کو گذشتہ 6 ماہ سے اپوزیشن کانگریس سے سخت مقابلہ درپیش ہے تو اسے سنبھل کر فیصلے کرنے کی صرورت تھی ۔ گجرات کے اسمبلی انتخابات میں ہی کانگریس نے مودی کی آبائی ریاست میں بی جے پی کو کمزور کردیا اور اس کا ووٹ فیصد بھی گھٹ گیا ۔ اسی طرح کرناٹک میں بھی بی جے پی کا ووٹ فیصد کانگریس کے مقابلہ میں کم ہے ۔ کرناٹک میں غریب عوام کی اکثریت زیادہ ہے ۔ یہاں دیہی آبادی کی ضروریات اور پریشانیاں مختلف ہیں ان کی شکایات کو دور کیے بغیر بی جے پی نے ان سے ووٹ مانگنے کی کوشش کی جس کا جواب نتیجہ کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ اب کانگریس پارٹی نے علاقائی پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت سازی شروع کی ہے تو وہ کسانوں کو رجھانے والے پروگراموں کا اعلان کرے گی کیوں کہ اب کئی ریاستوں میں حکومتوں کی جانب سے کسانوں کو خوش رکھنے کی مہم شروع کی گئی ہے ۔ موافق دیہی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں ۔ دیہاتوں میں رہنے والوں کی تائید حاصل ہونا حکومت کے لیے ضروری سمجھا جارہا ہے ۔ اس کے لیے حکومتوں کو چاہئے کہ وہ دیہی مزدوروں کی اجرتوں میں اضافہ ، برقی ، پانی اور بلدی مسائل کی یکسوئی پر توجہ دی جائے ۔ کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے نعرے صرف ایک ’ مذاق ‘ کا موضوع بن سکتے ہیں اس پر کوئی بھی یقین نہیں کرتا ۔ اس لیے حکومتوں کو چاہئے کہ وہ مضحکہ خیز نعرے لگانا بند کر کے عملی اقدامات کریں ۔ ملک میں پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کا اثر دیہی علاقوں سے زیادہ شہری علاقوں پر ہوگا ۔ اب مودی حکومت کو دیہی علاقوں کے عوام کی ناراضگی کے بعد شہری عوام کی ناراضگی کا شکار ہونا پڑے گا ۔ آنے والے 3 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو اس کی مہنگی پالیسیوں اور غیر منصوبہ بندی اقدامات سے ہونے والے اثرات کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا پڑے گا ۔ روپئے کی قدر میں کمی سے بھی عوام کے ذاتی مالیاتی منصوبوں پر منفی اثر پڑرہا ہے ۔ گذشتہ 3 ماہ کے دوران روپئے کی قدر گھٹ گئی ہے ۔ امریکی ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر میں 5 فیصد کی کمی درج کی گئی جس سے درآمدات کے لیے بھاری لاگت آئے گی اور ہندوستانی عوام کی قوت خرید سے بڑھ کر قیمتیں عائد ہوں گی تو اس سے پیدا ہونے والی ناراضگیوں اور معاشی عدم توازن کو حکومت کس طرح ختم کرے گی یہ اس کی آئندہ کی منصوبہ بندی پر منحصر ہے ۔