صرف سرچ کرنے سے آپ شک کے دائرے میں آجاتے ہیں
حیدرآباد۔4جولائی(سیاست نیوز) محکمہ پولیس با لخصوص انسداد دہشت گردی دستوں کی رسائی نوجوانوں تک کیسے ممکن ہو پا رہی ہے؟ یہ بات اب کوئی معمہ نہیں ہے بلکہ انفارمیشن ٹکنالوجی کا غلط استعمال نوجوانوں کو جیل تک پہنچا سکتا ہے لیکن بعض جذباتی نوجوان جو ٹکنالوجی کے استعمال سے واقف نہیں ہیں وہ عصری سہولتوں کا غلط استعمال کر بیٹھتے ہیں جس کے بسا اوقات سنگین نتائج برآمد ہونے لگتے ہیں۔پولیس کی جانب سے موبائیل اور انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھی جانا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس بات سے نا واقف نوجوان اکثر جذباتیت کا شکار ہوتے ہوئے ایسی ویڈیوز یا تصاویر کا مشاہدہ کرتے ہیں جو ملکی مفادات کے مغائر ہے۔ مختلف ممالک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی داستانیں اب سوشل میڈیا کے ذریعہ عام ہونے لگی ہیں اور ان مظالم پر بے ساختہ رد عمل ظاہر کرتے ہوئے برہمی کا اظہار کرتے ہیں ان نوجوانوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے استعمال میں کس نوجوان کی رغبت کہاں ہے اس کا پتہ بہ آسانی چلایا جا سکتاہے اور خفیہ ادارے اس خصوص میں دلچسپی لیتے ہوئے نوجوانوں کو شکار بنا رہے ہیں۔ سابق میں پڑوسی ملک کی جانب سے لڑکیوں کے استعمال کے ذریعہ ہندستانی افواج کے عہدیداروں کو شکار بنانے کی بھی نظیر ملتی ہے۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ ملک کے دیگر مقامات پر نوجوانوں کی نقل و حرکت سے زیادہ نوجوانوں کے فون و انٹرنیٹ کے استعمال پر نگاہ رکھی جاتی ہے اس بات کا اندازہ بہت کم نوجوانوں کو ہوتا ہے کہ ان پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ عام طور پر پیشہ ور مجرم اس طرح کی حرکتوں سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ وہ جرم کی دنیا میں احتیط کے تقاضوں سے واقف ہوتے ہیں لیکن ایسے نوجوان جو جذبات سے مغلوب ہوتے ہوئے امت واحدہ کے درد کو محسوس کرتے ہوئے رد عمل ظاہر کر بیٹھتے ہیں وہ ان عناصر کے شکار بن جاتے ہیں جو در حقیقت امت کے نام پر خون خرابہ کے تصور کو عام کرتے ہوئے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش میں مصروف ہیں۔ نوجوانوں کو پھانسنے کیلئے نہ صرف ایجنسیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر لوگ مصروف ہوتے ہیںبلکہ ان کی ہر حرکت پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔ نوجوان اپنے انٹرنیٹ کو محفوظ رتصور کرتے ہوئے اس کا من مانی استعمال کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات سے واقف ہونا چاہئے کہ ان کے انٹرنیٹ کنکشن پر جس کسی چیز کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے یا ان کے فون سے کیا پیغام روانہ کیا جا رہا ہے اسے محفوظ کیا جا تا ہے ان محفوظ پیامات و ڈاٹا کا استعمال بطور شواہد کیا جا سکتا ہے اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔ کئی نوجوانوں کو بعض ایجنسیز یا پھر ممنوعہ تنظیموں کی جانب سے ہی ایسے ویب لنک روانہ کئے جاتے ہیں جن کا مشاہدہ ان کیلئے خطرے کا سبب بن سکتاہے۔ ذرائع کے بموجب ایجنسیاں اس طرح کے لنک روانہ کرتے ہوئے استعمال کنندہ کی دلچسپیوں کا گہرائی سے مطالعہ کرتی ہیں اور پھر اقدام کیا جا تا ہے۔ حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھنے کیلئے خصوصی ٹیم کام کر رہی ہے اور اسی طرح ملک بھر میں سائبر پولیس کے رجحان کو فروغ دیا جا رہا ہے جس کے ذریعہ ہر شہری پر نگاہ رکھنا بہت آسان ہو جائے گا۔