سلیم کے والد کو شکار سے بہت رغبت تھی ۔ اس لئے انہوں نے دس اچھی نسل کے گھوڑے پال رکھے تھے جن پر کبھی کبھی سلیم بھی سیر کو جایا کرتا تھا ۔ لیکن وہ بڑا ہی سخت دل تھا ۔ جانوروں کو ستانا تو اس کی عادت تھی ۔ ایک دن اس نے مجھے ساتھ لیا اور گھوڑے پر بیٹھ کر ہم شکار پر نکل پڑے ۔ جگل میں ایک پیڑ پر تیتروں کی ٹولیاں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ سلیم نے نشانہ دیکھنے کیلئے ایرگن چلادی اور آن کی آن میں تیتر تڑپتا ہوا زمین پر گرا ۔ اس وقت تو مجھے بھی مزہ آرہا تھا میں نے داد دیتے ہوئے کہا ۔
جواب نہیں اچھا وہ دیکھو وہ رہی فاختہ ۔ اس کو گرا کر دکھاؤ ۔ سلیم نے میری طرف دیکھا اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی اور جب وہ نشانہ بنانے کیلئے ایر گن کی لبلبی دبا نے والا ہی تھا تو میں نے ایک دم اس کا ہاتھ پکڑلیا ایر گن کا منھ میری طرف ہوگیا لبلبی دب چکی تھی اور چّھرا میری دائیں آنکھ کو چھوگیا تھا۔ میری زبان سے کچھ بھی نہ نکلا ۔ سلیم غالباً سمجھ چکا تھا کہ میں اسے منع کر رہا ہوں ۔ بیوقوف اس نے غصے سے میری طرف دیکھا اور گھوڑ کو ایڑ لگادی وہ جاچکا تھا اور میری آنکھ سے خون جاری تھا ۔ پھر میں نے بھی گھوڑے کو دھیرے دھیرے آگے بڑھایا جب گھر پہنچا تو تقریباً بے ہوش ہوچکا تھا ۔ اباجی دروازے پر کھڑے تھے دبیز شیشوں کی عینک اتار کر انہوں نے مجھے دیکھا اور بیٹا اکمل چیختے ہوئے مجھ سے آلپٹے ۔ میں نے ایک ہفتہ بہت تکلیف میں گذارا مجھے سلیم کا انتظار تھا لیکن وہ نہیں آیا ۔ اباجی نے مجھ سے وجہ بھی پوچھی لیکن میں نے انہیں کچھ نہ بتایا ۔ اوراس دن یوں میری اور سلیم کی بارہ سالہ بچپن کی دوستی ختم ہوگئی ۔ صرف اس وجہ سے کہ میں نے اسے اس ظالمانہ حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی ۔