نئے قائدین کے سیلاب سے پرانے قائدین پس منظر میں

اجنبی پن کا احساس، قیادت سے شکایت۔کے ٹی آر ، کویتا اور کیشوراؤ منانے میں مصروف
حیدرآباد۔/26جنوری، ( سیاست نیوز)گریٹر حیدرآباد انتخابات میں بلدیہ پر قبضہ کیلئے ٹی آر ایس میں دیگر جماعتوں کے قائدین کی شمولیت کے سیلاب نے پارٹی کے سینئر قائدین اور کیڈر کو تشویش میں مبتلاء کردیا ہے۔ روزانہ بڑی تعداد میں قائدین کی شمولیت کے ذریعہ ٹی آر ایس 150رکنی بلدیہ میں 70تا 80نشستوں پر کامیابی کا نشانہ رکھتی ہے تاہم پارٹی کو مستحکم کرنے کی یہ کوشش داخلی طور پر ناراضگی کا سبب بن رہی ہے۔ اس کا اندازہ اسوقت ہوا جب گزشتہ 15 برسوں سے پارٹی سے وابستہ کئی سینئر قائدین نے انتخابی مہم سے دوری اختیار کرلی اور بعض نے کھل کر اپنی ناراضگی کا قائدین کے سامنے اظہار کیا۔ ان حالات میں پارٹی قیادت ایک طرف گریٹر حیدرآباد میں کامیابی تو دوسری طرف ناراض قائدین کو منانے کی کوششوں میں جُٹ گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پارٹی کے قیام سے وابستہ کئی قائدین کو موجودہ صورتحال میں عدم تحفظ کا احساس ہونے لگا ہے اور بڑی تعداد میں دیگر جماعتوں کے قائدین کی شمولیت اور انہیں پارٹی میں دی جانے والی اہمیت نے انہیں سیاسی مستقبل کے بارے میں اندیشوں کا شکار کردیا ہے۔ بلدی انتخابی مہم میں پارٹی کے اسٹار کمپینر کے ٹی راما راؤ سے کئی سینئر قائدین نے ملاقات کرتے ہوئے اپنے اندیشوں اور تشویش سے واقف کرایا۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے قائدین کو پارٹی میں جس انداز میں اہمیت دی جارہی ہے اس سے انہیں مستقبل میں ناانصافی کا اندیشہ ہے۔ کے ٹی آر نے سینئر قائدین کو تیقن دیا کہ ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی اور سینیاریٹی کی بنیاد پر پارٹی اور حکومت کے عہدوں میں ترجیح دی جائے گی۔ واضح رہے کہ اسمبلی انتخابات سے قبل کئی سابق وزراء اور ارکان اسمبلی نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور انہیں پارٹی نے اسمبلی اور لوک سبھا کا ٹکٹ دیا۔ ان میں ایسے قائدین بھی شامل تھے جو مخالف تلنگانہ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے چکے تھے۔حکومت کی تشکیل کے بعد کئی سابق تلگودیشم قائدین کو کابینہ میں جگہ دی گئی۔ اب جبکہ بلدی انتخابات کی مہم عروج پر ہے گریٹر حیدرآباد پر قبضہ کیلئے تلگودیشم اور کانگریس کے کئی عوامی نمائندوں کو پارٹی میں شامل کیا گیا اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ تلگودیشم، کانگریس اور بی جے پی کے کئی سابق وزراء، سابق ارکان اسمبلی اور سابق کارپوریٹرس ٹی آر ایس کا رُخ کررہے ہیں اور انتخابی مہم میں انہیں پارٹی نے آگے کردیا ہے تاکہ امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ صورتحال ایک طرف سینئر قائدین کیلئے تو دوسری طرف خود پارٹی قیادت کیلئے اُلجھن کا باعث بن چکی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ صدر گریٹر حیدرآباد ٹی آر ایس ایم ہنمنت راؤ کی انتخابی مہم سے دوری کی اہم وجہ یہی ہے کہ حالیہ عرصہ میں شامل ہونے والے قائدین کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ پارٹی کے قیام سے وابستہ قائدین کا کہنا ہے کہ سینیاریٹی کے باوجود وہ موجودہ حالات میں خود کو پارٹی میں اجنبی محسوس کررہے ہیں اور ہر سطح پر نووارد قائدین کا غلبہ ہوچکا ہے۔ اس طرح پرانے قائدین عملاً اجنبی ہوگئے اور نئے قائدین پارٹی قیادت سے قریب ہوچکے ہیں۔ سینئر قائدین کو پارٹی کی انتخابی مہم میں شامل رکھنے کیلئے کے ٹی آر، کویتا، ڈاکٹر کے کیشوراؤ اور شہر سے تعلق رکھنے والے ریاستی وزراء نے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا ہے اور انہیں یقین ہے کہ انتخابی مہم میں نئے اور پرانے دونوں قائدین متحدہ طور پر شامل ہوں گے۔سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ٹی آر ایس میں پارٹی کے قیام کے وقت طئے کی گئی پالیسی سے انحراف کرلیا گیا اور مخالف تلنگانہ قائدین آج حکومت اور پارٹی دونوں میں اہم عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں ایسے میں گریٹر حیدرآباد کی انتخابی مہم پر اثر پڑسکتا ہے۔ کئی حلقے ایسے ہیں جہاں نئے قائدین کی شمولیت کے بعد سینئر اور قدیم کارکنوں نے مہم سے دوری اختیار کرلی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹی آر ایس قیادت پرانے اور نئے قائدین کے اس تنازعہ کو خوشگوار انداز میں کس طرح نمٹ پائے گی۔