نئے سال کے جشن کی طوفان بدتمیزی اور حادثات سے نوجوانوں کو بچانا ضروری

اولاد پر نظر رکھنا والدین کی ذمہ داری ، چیخ و پکار اور نازیبا حرکات حیدرآبادی تہذیب کے منافی
حیدرآباد ۔ 30 ۔ دسمبر : ( نمائندہ خصوصی) : شہر کے مختلف مقامات پر سال نو کی آمد کے موقع پر جس انداز میں طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے وہ ہماری نوجوان نسل کی بے راہ روی کی عکاسی کرتا ہے ۔ ہر سال نئے سال کے آخری دن حسین ساگر ، نیکلس روڈ اور آس پاس کے علاقوں میں پولیس کی سخت چوکسی اور انتظامات کے باوجود نوجوان لڑکے لڑکیاں وہاں کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں ان میں پرانا شہر کے نوجوان بھی شامل ہوتے ہیں ۔ سارے ماحول میں اس قدر طوفان بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کو احساس ہوتا ہے کہ حیدرآباد میں ایک ایسی تہذیب فروغ پا رہی ہے جس سے حیدرآباد فرندہ بنیاد کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ شائستگی ، معتبری اور اقدار ہماری تہذیب کا خاصا ہیں ۔ پرانا شہر کے پار نئے شہر میں ہر سال ایسے شرمناک مناظر دیکھے جاتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں تہذیبی اقدار میں بھیانک گراوٹ پیدا ہورہی ہے ۔ نئے شہر کی طرح ہمارے شہر میں بھی نئے سال کا جشن منانے کا رواج پڑ گیا ہے ۔ دہشت پیدا کرنے والی آوازیں لگاتے ہوئے نوجوانوں کو گھومتے پھرتے دیکھا جاتا ہے ۔ سڑکوں پر بے ہنگم انداز میں گاڑیاں دوڑاتے ہوئے چیخ و پکار کے ذریعہ ماحول میں عجیب قسم کی ڈراونی کیفیت پیدا کر کے شائد یہ نوجوان سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے تیر مار رہے ہیں یا کارنامہ انجام دے رہے ہیں ۔ جب کہ حقیقت میں وہ اپنے والدین کی امیدوں کا قتل کررہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ہم نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں سے بات کی ۔ انجینئرنگ کے طالب علم محمد عثمان احمد نے کہا کہ نئے سال کا جشن منانا ہمارے مذہب میں نہیں ہے اور نہ ہی یہ حیدرآبادی کلچر کا حصہ ہے بلکہ وقت اور رقم کی بربادی کے سواء کچھ نہیں ۔ یہ ایک طرح کی بیوقوفی ہے ۔ اس لیے کہ نارمل لوگ سڑکوں پر چیخ و پکار کرتے نہیں پھرتے یا سڑکوں پر ناچ گانوں کے ذریعہ اپنی حقیقی تہذیب کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ شہر میں فلاحی و سماجی خدمات میں مصروف مہر آرگنائزیشن کے ذمہ داروں سے بات کرنے پر ان لوگوں نے بتایا کہ ہمارے شہر میں مختلف مقامات پر مغربی اقدار کی تقلید کرتے ہوئے کیکس کے اسٹالس نصب کئے جارہے ہیں اور لوگ پر جوش انداز میں ان کیکس کی خریدی بھی کررہے ہیں ۔ حالانکہ کسی بھی لحاظ سے اس طرح کے طریقوں کے لیے ہمارے معاشرہ میں کوئی جگہ نہیں ۔ مہر آرگنائزیشن کے عہدیداروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے سال کے جشن منانے کی بجائے ہمارے نوجوانوں کو دینی اجتماعات و محافل میں شریک ہونا چاہئے جس سے نہ صرف دنیا بلکہ آخرت بھی سدھر جاتی ہے ۔ یہ تنظیمیں 31 دسمبر کی رات دینی محافل کا اہتمام کرتی آرہی ہے ۔ ان سات برسوں کے دوران کم از کم 20 مقامات پر دینی محفلوں کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ عفان قادری کے مطابق والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں سال کے آخری دن انہیں اپنے گھروں سے باہر جانے نہ دیں ۔ اس لیے کہ اس دن بے شمار سڑک حادثات پیش آتے ہیں نئے سال کی خوشیوں میں بے راہ روی کا شکار نوجوان کسی کی پرواہ نہیں کرتے ۔ دوسری طرف اقراء قرات سوسائٹی کے بانی و معتمد قاری عبدالقیوم شاکر کا کہنا ہے کہ ہمارا اپنا سال تو یکم محرم سے شروع ہوتا ہے ۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ لوگوں کو اپنے گذرے ہوئے دنوں میں کئے گئے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے اور دین اسلام پر چلنے کے ساتھ ساتھ اس کی تبلیغ و اشاعت میں جٹ جانے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے ۔ قاری صاحب کے مطابق قیمتی لمحات کے گذرنے کا افسوس کرتے ہوئے آنے والے دنوں میں گناہوں سے بچتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول ؐ کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر کرنی چاہئے ۔ بہر حال راقم الحروف نے ہر سال اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ دواخانہ عثمانیہ گاندھی اور دیگر کارپوریٹ ہاسپٹلوں میں ایسے نوجوان تڑپتے ہوئے پائے گئے جو نئے سال کا جشن منانے کی چکر میں حادثات کا شکار ہو کر نہ صرف خود بلکہ اپنے والدین و رشتہ داروں کے لیے بوجھ بن گئے ۔۔