نئے سال کے جشن اور شیطانی حرکات سے اپنے بچوں کو بچائیں

حیدرآباد ۔ 30 ۔ دسمبر : زندگی بہت تیزی کے ساتھ گذر رہی ہے ۔ ماوؤں کے گود میں کھیلنے والے بچے دیکھتے ہی دیکھتے گھروں میں کھیلنے لگے ہیں ۔ گرگر کر چلنے والے معصوم بڑے ہوگئے ہیں اور جو بڑے ہوچکے تھے وہ اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے ہیں جب کہ ادھیڑ عمر کے لوگ ضعیفی کی جانب آگے بڑھے جارہے ہیں ۔ یعنی زندگی موت کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ ہر نئے لمحہ نئے منٹ نئے گھنٹے نئے دن اور نئے سال کے ساتھ ہماری زندگی کا لمحہ ، منٹ گھنٹہ ، دن ، ماہ اور سال کم ہوتا جارہا ہے ۔ اس کے باوجود ہمیں زندگی پوری دیانت داری کے ساتھ گذارنی ہوگی ۔ ایک ایسی زندگی جس میں جوش و ولولہ ہوں امنگ و آرزو ہو ۔ ہنستے کھیلتے زندگی گذارنے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ ایسی زندگی گذارنا تو انسانوں کی خوش قسمتی ہے تاہم نئے سال کا انتہائی منچلے انداز ، طوفان بدتمیزی برپا کرتے ہوئے جانوروں جیسی چیخ و پکار ، اور شیطانی حرکتوں کے ذریعہ اگر کوئی استقبال کرتا ہے تو سمجھئے کہ وہ انتہائی بدبخت اور بدنصیب ہے ۔ ہر سال کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کی رات 9 بجے سے ہی ہمارے شہر کے چند مقامات بالخصوص حسین ساگر ، نیکلس روڈ پر نوجوان لڑکے لڑکیاں ایسی چیخ و پکار کرتے ہیں جیسے ان کی زندگی میں کوئی انقلاب برپا ہوگیا ہو ۔ ان کے ساتھ ایسا کچھ گذرا ہو جس سے وہ دنیا کے سب سے خوش نصیب و خوشحال انسان بن گئے ہوں ۔ ان کی خطرناک شور شرابے سے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان قریب کے کسی کونے میں ٹہرا قہقہہ بلند کررہا ہے اور ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کو یہ کہتے ہوئے شاباشی دے رہا ہو کہ شاباش میرے پٹھو تم نے آج مجھے خوش کردیا ۔ تمہاری طرح نئے سال کے اس جشن ، چیخ و پکار ، شراب نوشی ، موج مستی رقص وسرور کی محفلوں اور جابجا گناہوں کے ارتکاب کا ہر سال مجھے بھی بڑا بے چینی سے انتظار رہتا ہے کیوں کہ تمہاری ان حرکتوں سے اللہ ناراض اور میں خوش ہوتا ہوں ۔

بہر حال قارئین ! نئے سال کا جشن ، جشن نہیں بلکہ ایک طرح سے طوفان بدتمیزی برپا کرنے کا موقع ہے ۔ رات 9 بجے سے ہی نوجوان لڑکے لڑکیاں جس میں نئے شہر کے ساتھ ساتھ پرانا شہر سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہوتی ہے ٹینک بینڈ اور نیکلس روڈ جیسے علاقوں میں جمع ہو کر چیخ و پکار شروع کردیتے ہیں ۔ پاگلوں کی طرح ناچنے لگتے ہیں ۔ ان مقامات پر 9 تا ایک بجے تک وہاں ایسے شرمناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں جنہیں ضبط تحریر میں نہیں لایا جاسکتا ۔ گذشتہ کئی برسوں سے ان مقامات پر برقعہ پوش لڑکیوں کو بھی دیکھا گیا جو نئے سال کا بڑی بے باکی سے جشن منا رہی تھیں جب کہ نئے سال کا جشن منانے والے ان نوجوانوں کو اس بات کا خیال ہی نہیں رہتا کہ وہ کس حادثے کا شکار ہوسکتے ہیں ۔ شدید زخمی ہو کر نئے سال میں اپنے والدین اور رشتہ داروں کو زندگی بھر کا غم دے سکتے ہیں ۔ ہم ہر سال 31 دسمبر کی شب عثمانیہ جنرل ہاسپٹل اور گاندھی ہاسپٹل کے ایمرجنسی وارڈس میں اپنے نوجوانوں کو بے حس پڑے دیکھا ہے جو نئے سال کا جشن مناتے ہوئے اس قدر بے قابو ہوگئے کہ جشن کی چکر میں اپنے والدین ، بھائیوں ، بہنوں اور دیگر رشتے داروں کے لیے غم کا سامان کردیا ۔ آج شدید مہنگائی کے اس دور میں معمولی آپریشن کے لیے بھی ہزاروں لاکھوں روپئے وصول کئے جارہے ہیں ۔

ان حالات میں سرپرستوں کو چاہئے کہ آج کے دن ( 31 دسمبر ) اپنے جوان بچوں پر خصوصی نگرانی رکھیں ۔ انہیں اپنی نظروں سے دور نہ کریں ورنہ اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ وہ نظروں سے بہت دور ہوجائیں گے ۔ ویسے بھی عقل مند انسان وہی ہیں جو طوفان آنے سے پہلے کٹہ باندھ لیتے ہیں ۔ اس لیے والدین و سرپرستوں کو چاہئے کہ نئے سال کے آغاز سے قبل 31 دسمبر کو اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیں ۔ موٹر سیکلیں وغیرہ تو قطعی نہ دیں کیوںکہ ٹریفک اور اس میں نوجوانوں کا بے قابو تیز رفتار گاڑیاں چلانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے ۔ بہرحال ہر کسی کو سال 2014 کے استقبال کے موقع پر چوکس و چوکنا رہنا چاہئے ۔ ورنہ نیا سال کا اخری دن ہماری زندگی کا بدترین دن ثابت