نئے اضلاع پر تنازعہ

مانا کہ پرفریب ہے وعدہ ترا مگر
کرتے ہیں انتظار بڑے اعتبار سے
نئے اضلاع پر تنازعہ
ملک کی سب سے نئی ریاست تلنگانہ میںان دنوں نئے اضلاع کی تشکیل کا عمل زور و شور سے جاری ہے ۔ اس سلسلہ میں زبردست سرگرمیاں چل رہی ہیں۔ نئے اضلاع کی تشکیل پر جہاں کچھ گوشوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جا رہا ہے وہیںکچھ گوشوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا جا رہا ہے ۔ عوام کے کچھ گوشوں کو اس پر اعتراض ہے تو کچھ اس میں تبدیلیوں کے خواہشمند ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت ان تمام حالات کے باوجود اپنے منصوبے کے مطابق ہی نئے اضلاع تشکیل دینے کیلئے فیصلہ کرچکی ہے اور اس پر کام تیزی سے جاری ہے ۔ جہاں عوام میں اس تعلق سے ملا جلا رد عمل ہے وہیں اپوزیشن جماعتوں کا برسر اقتدار ٹی آر ایس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے نئے اضلاع کی تشکیل کا منصوبہ تیار کیا ہے ۔ جس انداز میں نئے اضلاع تشکیل دئے جا رہے ہیں ان سے مسائل حل ہونے کی بجائے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور انتظامات میںپریشانیاں ہونگی ۔ کانگریس پارٹی کا الزام ہے کہ حکومت محض اپنے سیاسی فائدہ کو پیش نظر رکھ کر کام کر رہی ہے اور اس نے نئے اضلاع کی تشکیل میں سائنٹفک معیارات کو یکسر نظر انداز کردیا ہے ۔ کانگریس کا مطالبہ ہے کہ جنگاوں اور گدوال کو بھی نئے اضلاع بنایا جائے ۔ حکومت نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا ہے ۔ کانگریس کا ادعا ہے کہ اس نے کل جماعتی اجلاس میں بھی یہ مطالبہ پیش کیا تھا لیکن حکومت اس پر غور کرنے کیلئے بھی تیار نہیںہے ۔ ریاستی حکومت چاہتی ہے کہ دسہرہ کے موقع پر نئے اضلاع کا وجود عمل میں آجائے اور کام کاج شروع ہوجائے ۔ اس سلسلہ میں تیزی کے ساتھ تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ محکمہ جات میں عہدیداروں کی تقسیم کے امکانات پر غور کیا جا رہا ہے ملازمین کو بھی تقسیم کیا جانا ہے ۔ نئے اضلاع کی تشکیل کے بعد یہ اندیشے ہیں کہ یہاں عملہ کی کمی اور ملازمین کے فقدان کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر نئے تقررات بھی عمل میںلانے سے گریز نہیں کریگی ۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی پورا ہونے والا اور آسان عمل نہیں ہے ۔ اس کیلئے کچھ طریقہ کار ہے ۔ اس کیلئے وقت درکار ہوتا ہے ۔
نئے اضلاع کی تشکیل سے فوری طور پر جو مشکلات پیش آئیں گی ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس عمل کو جتنی جلد بازی میں مکمل کرنے کا حکومت نے ارادہ کیا ہے اور جس تیزی سے مختلف امور انجام دئے جا رہے ہیںوہ شائد مناسب نہیں ہیں۔ صرف سرحدات کا تعین کرتے ہوئے کسی علاقہ کو ضلع قرار دیدینا بہت آسان عمل ہے لیکن اس کے ساتھ جو کام ضروری ہوتے ہیں ان کی انجام دہی آسان نہیں ہوگی ۔ انتظامات کو غیر مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات کی فراہمی اور انفرا اسٹرکچر کی فراہمی ایسے کام ہیںجو وقت طلب ہیںاور یہ آسان بھی نہیں ہیں ۔ ان کیلئے جامع منصوبہ بندی اورمبسوط حکومت عملی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ فی الحال ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں کہ ان مسائل پر حکومت کیا موقف اختیار کریگی اور انفرا اسٹرکچر کی فراہمی کیلئے کیا منصوبہ تیار کیا گیا ہے ۔ چونکہ نئے اضلاع کی تشکیل کے بعد حالات میں تبدیلی یقینی ہے ایسے میں کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے اپنے پسند کے مقامات کو نیا ضلع بنایا جائے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے سامنے بھی ان کو درپیش آنے والے حالات ہیں۔ حکومت کے سامنے اپنی ترجیحات ہیں۔ عوام کے سامنے اپنے مسائل ہیں۔ عہدیداروں کے سامنے ان کے فرائض ہیں ۔ ان سب کو مل بیٹھ کر ایسا کوئی جامع منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت تھی جس کے ذریعہ سارے کام منظم انداز میںانجام دئے جاسکیں۔ تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور جہاں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں وہیں تنازعات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ ان تنازعات کو ختم کرنا ٹی آر ایس حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
حکومت انتظامات میں آسانی اور ترقی کے عمل کوتیز کرنے کے دعوے کرتے ہوئے یہ کام بہت جلدی میں مکمل کرنا چاہتی ہے لیکن ایسا مناسب نہیںہے ۔ حکومت کے پاس اضلاع کی تشکیل کا عمل مکمل کرنے اور بعد کے حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی بلیو پرنٹ بھی نہیں ہے اس کے باوجود نئے اضلاع کی تشکیل کی تاریخ طئے کردی گئی ہے ۔ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے الزامات کا جہاں تک سوال ہے اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ تقریبا ہر برسر اقتدار جماعت اپنے سیاسی فائدہ کیلئے کوشش کرتی ہے لیکن اس کیلئے سرکاری کام کاج سے فائدہ حاصل کرنا مناسب نہیںہے ۔ حکومت نے جہاں نئے اضلاع کی تشکیل کا عمل تیز کردیا ہے تو اس کو عوام اور اپوزیشن کے جائز اور واجبی مطالبات کا بھی جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے ۔ عوامی رائے کا احترام کئے بغیر اور اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر من مانے انداز میں پیشرفت سے اسے گریز کرنا چاہئے ۔