نئی ریاست تلنگانہ اور مسلمان

ہوش مندی سے کرو تم انتخاب
بعد میں پچھتانے سے حاصل ہے کیا
نئی ریاست تلنگانہ اور مسلمان
مسلمانوں کے لئے اب یہ خواب محض خواب نہیں رہے گا کہ ریاست تلنگانہ میں ان کی تعلیمی، معاشی اور سیاسی سطح پر نئے دور کا آغاز ہوگا۔ تلنگانہ تحریک کے دوران جن جن پارٹیوں نے خاص کر ٹی آر ایس کا یہ کہنا بھی حقیقت کا روپ دھارے گا کہ نئی ریاست تلنگانہ میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دیئے جائیں گے۔ تحریک تلنگانہ سے حاصل ہونے والے ثمرات میں مسلمانوں کوبھی برابر حصہ ملے گا۔ تلنگانہ کو بنا بنایا دارالحکومت ملا ہے تو یہاں کے انفراسٹرکچر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ہونے والی آمدنی پر شہریوں کا حق ہوگا۔ ملک کی 29 ویں ریاست کی حیثیت سے تلنگانہ کی معیشت کا دارومدار انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فارماسیوٹیکل صنعتوں سے ہونے والی آمدنی پر ہوگا۔ تلنگانہ کا سالانہ مالیہ 13000 کروڑ روپئے کا ہے۔ سائبر شعبہ میں عالمی درجہ کی آئی ٹی کمپنیاں جیسے فیس بک، گوگل، آئی بی ایم اور مائیکرو سافٹ قائم ہیں جن کی پیداوار جملہ 51000 کروڑ تک پہنچی ہے۔ ادویات سازی کی صنعتوں میں تلنگانہ علاقہ کو منفرد مقام حاصل ہے تو آئندہ چند برسوں میں مزید صنعتوں کے قیام سے روزگار اور مالیہ میں اضافہ ہوجائے گا۔ ہر شعبہ میں سرکاری ہو یا خانگی مسلمانوں کو ان کا حصہ ضرور ملنا چاہئے۔ تلنگانہ تحریک کی جدوجہد میں مسلمانوں کے رول کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بعض مسلم گروپس نے دوغلے پن کا مظاہرہ کرکے متحدہ آندھرا کا نعرہ لگایا تھا۔ اس کے منفی اثرات پورے مسلم طبقہ پر نہیں پڑنے چاہئے۔ مسلمانوں کے ایک بڑے گروپ کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ یہاں پر رائج ایک سیاسی ٹولے کی ٹھیکیداری نظام ہے۔ کم و بیش اب اس ٹولے کے غلبہ کو عوام خود برخاست کردیں گے۔ تلنگانہ کو ترقی یافتہ علاقہ بنانے کیلئے آزمودہ لوگوں کو بار بار آزمانے سے گریز کیا جانا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو اپنے اردگرد منڈلانے چوروں، اچکوں، فراڈیوں اور بہروپیوں کے سروں پر حکمرانی یا قیادت کے سہرے سجانے سے پرہیز کرنا ہوگا۔ اب تک مسلمانوں کو مسائل، پریشانیوں اور کئی مصائب پیدا کرنے والوں کو سڑک پر گھسیٹا تھا لیکن انہیں ایوانوں میں بھیج کر اپنے لئے نئے مسائل پیدا کرلئے ہیں۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہوئی، کوئی نوجوان بیروزگار نہ رہے، کسی کو اپنی زندگی خطرے میں محسوس نہ ہو اور فرقہ پرستوں کے ارادے کامیاب نہ ہوں۔

اس کے لئے مسلمانوں کو ایک منظم سیاسی، سماجی اور تعلیمی و معاشی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا لائحہ عمل اور حکمت عملی جس پر تمام مسلمانوں کو اتفاق ہو اور وقت آنے پر حکومت کے سامنے لائحہ عمل کو پیش کرکے مسلمانوں کے حق میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے اب تک ہوئی ناانصافیوں کے ازالہ کی کامیاب کوشش کی جاسکے۔ تلنگانہ میں اوقافی جائیدادوں کا اندھادھند غلط طریقہ سے استعمال ہورہا ہے۔ ان اوقافی جائیدادوں پر سے ناجائز قبضہ برخاست کرکے کسی فرد واحد کی اجارہ داری ختم کرتے ہوئے انہیں امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کیلئے تصرف میں لانے پر دھیان دینا ہوگا۔ تلنگانہ تحریک کو زندہ کرنے والے قائدین نے 14 سال سے جدوجہد کرتے ہوئے تلنگانہ کو یقینی بنایا ہے۔ ان قائدین نے تلنگانہ تحریک میں کو طاقت بخشنے کیلئے مسلمانوں کا بھرپور تعاون حاصل کیا تھا اور ہر وقت ہر تقریر میں یہ وعدہ کیا جاتا رہا کہ مسلمانوں کو ہر سطح پر ترقی دی جائے گی۔ اردو کو اس کا جائز مقام ملے گا۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کا قیام اسی جذبہ سے ہوا تھا۔ ’’تلنگانہ والے جاگو آندھرا والے بھاگو‘‘ کے نعرے نے اپنا اثر دکھایا ہے تو آندھراپردیش اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی حیثیت سے استعفیٰ دیکر تلگودیشم کو خیرباد کہنے کے بعد تلنگانہ تحریک کو بام عروج پر لے جانے والے کے سی آر کو اپنے وعدوں کو روبہ عمل لانے میں کوئی کوتاہی اور تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کرنا ہوگا۔ بلاشبہ تلنگانہ میں مسلمانوں کو ووٹنگ پاور حاصل ہے۔ ان کا ووٹ ہی نئی ریاست میں تلنگانہ والوں کی حکومت کو ایک سمت عطا کرسکتا ہے۔ تلنگانہ کے 119 اسمبلی حلقوں میں سے کئی حلقے مسلم ووٹوں کے لئے مضبوط گڑھ مانے جاتے ہیں۔ اس لئے آئندہ انتخابات میں مقامی مسلم کارگر و سمجھدار قائدین کو انتخابی میدان میں اتارنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ جس ریاست کو ہزاروں نوجوانوں کی قیمتی جانوں کی قربانی سے بنایا جارہا ہے اسے ایک یادگار اور ترقی یافتہ پرامن ماحول والی ریاست بنانا ہرایک کی ذمہ داری ہوگی۔ تلنگانہ تحریک میں ٹی آر ایس کے علاوہ کانگریس، تلگودیشم سے وابستہ علاقائی قائدین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ عوام کی اکثریت اس بات سے بخوبی واقف ہیکہ تلنگانہ کیلئے اپنا سکھ چین قربان کرنے والوں میں کونسے چہرے نمایاں تھے۔ اب نئی ریاست تلنگانہ میں مسلمانوں کیلئے رونے والے بہت آئیں گے لیکن مسلمانوں کو صرف نیک دل بندوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔

یہاں ایک اور حقیقت پر توجہ دینی ہوگی کہ ان کیلئے انصاف کی خودساختہ اور رضاکارانہ وکالت کرنے والی طاقتیں اپنی دیرینہ خدمات کے حوالے سے بیوقوف بنانے کیلئے اپنے پرانے حربوں کو استعمال کریں گی لہٰذا ہوشمندوں کی حکمت عملی یہی ہوتی ہیکہ وہ سیاسی مخاصمت کی بناء پر اکھاڑ بچھاڑ کی طفلانہ خواہشوں کا حصہ نہ بنیں۔