میں نے اکبر اویسی کی ہتھیلی پر بندوق چلانے کے آثار کی جانچ نہیں کی

ریمانڈ رپورٹ یا چارچ شیٹ میں تذکرہ نہیں ‘رکن اسمبلی کے پاس پستول تھی ‘ تحقیقاتی عہدیدار
حیدرآباد /28 اپریل ( سیاست نیوز ) چندرائن گٹہ حملہ کیس کی سماعت کے دوران کیس کے تحقیقاتی عہدیدار مسٹر ایم سرینواس پر آج پھر ایک مرتبہ وکیل دفاع نے جراح کیا ۔ گواہ نے عدالت کو یہ بتایا کہ انہوں نے تحقیقات کے دوران اکبر الدین اویسی کی ہتھیلی سے بندوق چلانے کے آثار برآمد نہیں کئے چونکہ ان کی حالات تشویشناک تھی اور ان کی سرجری ہوئی تھی ۔ انہوں نے اس بات کا ذکر ریمانڈ رپورٹ یا چارج شیٹ میں نہیں کیا ۔ سرینواس راؤ نے بتایا کہ کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری حاصل کرنے کے بعد وہ یکم مئی سے 20 مئی تک سات مرتبہ تحقیقات کے سلسلہ میں کیر ہاسپتال پہونچے تھے لیکن وہ 20 مئی تک زخمی رکن اسمبلی سے ملاقات نہ کرسکے ۔ وکیل دفاع ایڈوکیٹ جی گرومورتی نے گواہ سے یہ سوال کیا کہ رکن اسمبلی کی جانب سے کی گئی فائرنگ کے نتیجہ میں ابراہیم بن یونس یافعی کی موت واقع ہوئی اور دیگر زخمی ہوگئے تھے اور اس حقائق کو پوشیدہ رکھنے کیلئے رائل آرمری سیف آباد سے رکن اسمبلی کے اصلاح کی تفصیلات کا رجسٹر ضبط نہیں کیا لیکن انہوں نے یہ بتایا کہ رائل آرمری سے اس لئے اصلاح رجسٹر ضبط نہیں کیا کیونکہ رکن اسمبلی کا کوئی بھی ہتھیار آرمری میں موجود نہیں تھا ۔ جنوری 2010 میں اکبر اویسی نے رائل آرمری سے 50 راؤنڈ کارتوس خریدے تھے ۔ گواہ نے عدالت کو یہ بتایا کہ اکبر اویسی کے جسم میں ابھی ایک گولی موجود ہے جو پیٹ کے نیچے ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ 20 مئی 2011 کو اکبر اویسی کے ڈسچارج کے وقت انہوں نے ان کا بیان قلمبند کیا تھا اور اسی دوران یہ بات کا علم ہوا کہ حملے کے دن انکے پاس پستول موجود تھی ۔ گواہ نے یہ بتایاکہ اس کیس کے ملزم نمبر پانچ عود بھی یونس یافعی نے ضمانت کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع ہوئے تھے جہاں عدالت نے رکن اسمبلی اور دیگر کے خلاف جوابی مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا لیکن استغاثہ کی جانب سے ہائیکورٹ فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہونے پر اس فیصلہ کو کالعدم کرتے ہوئے عود یافعی کو یہ آزادی دی کہ وہ دوبارہ متعلقہ اتھاریٹی سے شکایت درج کروائیں جس کے نتیجہ میں ملزم نے چندرائن گٹہ پولیس سے شکایت درج کروائی تھی اور ایک مقدمہ درج کیا گیا ۔ وکیل دفاع نے انگلش اخبار دی ہندو میں شائع ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ سوال کیا کہ کیا اکبر اویسی نے اپنے حملہ آور پر گولی چلائی تھی ۔ گواہ نے یہ جواب دیا کہ ان کی تحقیقات میں اس بات کا پتہ چلا کہ حملہ کے وقت اکبر اویسی کے ہاتھ سے پستول زمین پر گر گئی تھی اور بعد ازاں انکے دوست نے اس پستول کو محفوظ رکھا ۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ۔