میرے گھر میں اگر ٹی وی ہوتا، تو میرے بچے ڈاکٹر انجینئر نہ بنتے : عبدالرحمن

حیدرآباد ۔ 21 ستمبر (نمائندہ خصوصی) محمد عبدالرحمن جو اپنی عمر کی 51 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ پچھلے 35 سال سے لوگوں میں قدرتی مٹھاس پھیلا رہے ہیں اور اپنے بچوں میں علم کی مٹھاس پیدا کررہے ہیں۔ جی ہاں! ہم بات کررہے ہیں عنبرپیٹ سے تعلق رکھنے والے 51 سالہ عبدالرحمن صاحب کی جو محض 14 سال کی عمر سے ہی بنڈی پر فروٹ فروخت کررہے ہیں اور آج بھی وہ حمایت نگر کے قریب بنڈی پر سیب فروخت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر صرف 6 کلاس تک تعلیم حاصل کرنے والے عبدالرحمن کی خوش قسمتی یہ ہیکہ ان کے بچے آج ڈاکٹر اور انجینئرس کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ میں نے اس بارے میں جب ان سے تفصیل سے معلوم کرنا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے والد مرحوم محمد عبدالرزاق بھی فروٹ بیچنے کا ہی کام کرتے تھے۔ عبدالرحمن نے بتایا کہ ان کو 3 لڑکے اور ایک لڑکی ہے مگر ان میں سے ایک لڑکا جو انجینئر کی تعلیم مکمل کرچکا تھا محض 22 سال کی عمر میں چکن پوکس کے مرض میں مبتلاء ہوکر فوت ہوگئے جبکہ دوسرا لڑکا عبدالرشید فی الحال ایم فارمیسی کررہے ہیں جو اپنے کلاس میں اول درجے کا اسٹوڈنٹ ہے۔ اسی طرح تیسرا لڑکا عبدالعزیز بھی الیکٹرانکس میں انجینئر کی تعلیم حاصل کررہا ہے اور وہ فائنل ایئر میں ہے۔ اس کے علاوہ ایک لڑکی ہے جو اپنی تعلیمی قابلیت اور اپنے تعلیمی شوق کی بدولت ایمسیٹ میں اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کی ہے جس کی وجہ سے اسے شہر کے ایک بڑے کالج میں باآسانی ایم بی بی ایس میں داخلہ مل گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ روزانہ پابندی سے صبح 8 بجے سے رات کے 8 بجے تک بنڈی پر فروٹ فروخت کرتے ہیں اور جس پھل کا موسم ہو وہ اس پھل کو فروخت کرتے ہیں۔ مذہبی شعائر کی پابندی کرنے والے عبدالرحمن نے بتایا کہ اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد روزانہ بعد نماز عشاء وہ اپنے گھر میں ’’درس قرآن‘‘ کا اہتمام کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک اہم بات یہ بتائی کہ ان کے گھر میں ٹی وی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے گھر میں ٹی وی ہوتا تو غربت کے باوجود آج ان کے بچے ڈاکٹر اور انجینئرس کی تعلیم حاصل نہیں کرپاتے۔ ٹی وی کو ضیاع وقت سمجھنے والے عبدالرحمن کا کہنا ہے ان کے بچے غیرضروری وقت برباد نہیں کرتے ہیں۔ انہیں تعلیم کا بے حد شوق ہے اور اسی شوق و جستجو کی بدولت وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلیم ہی ایک ایسا ہتھیار اور ذریعہ ہے جس کے ذریعہ کوئی بھی قوم اپنی اور اپنے قوم کی خدمت کرسکتی ہے۔ لہٰذا کسی بھی حال مسلمانوں کو تعلیم پر توجہ دینا ضروری ہے۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے حوصلوں اور ہمارے عزم کو آگے بڑھانے میں ان کے ایک دوست سید عابد علی صاحب کا بھی ہاتھ ہے۔ جب میں نے ان سے اس کامیابی اور ان کے بچوں میں تعلیمی شوق کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اس کی اہم وجہ گھر میں ٹی وی کا نہ ہونا بتایا اور کہا کہ آج ہماری قوم کی اکثریت خواہ مرد ہو یا عورت رات میں دیر تک ٹی وی سیریلس دیکھ کر اپنا قیمتی وقت برباد کررہے ہیں اور دیر سے سونے کی وجہ سے وہ صبح میں بھی دیر سے بیدار ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہیکہ ایسے گھروں میں بچوں کی تعلیم اسکول جانا اور اسکول سے آنا یعنی صرف ایک رسمی کام بن کر رہ جاتا ہے۔ 35 سال سے روڈ پر ٹھہر کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے والے عبدالرحمن کی یہ اسٹوری یقیناً قوم و ملت کیلئے ایک ایسا سبق اور مثال ہے جسے ہر مسلمان اپنے بچوں کو بتائیں تاکہ ان کے بچوں میں بھی تعلیمی شوق اجاگر ہوسکے۔ abuaimalazad@gmail.com