حیدرآباد ۔ 22 اپریل (سیاست نیوز) شہر حیدرآباد میں ویسے تو مختلف گلی کوچوں میں تاریخی یادگاریں موجود ہیں جن میں بعض بہتر دیکھ بھال کی وجہ سے بہتر حالت میں موجود ہیں اور بعض عمارتیں تو گلی کوچوں میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان میں ہی ایک یادگار انگلش اینڈ فار لینگویج یونیورسٹی (ایفلو) میں ہے جوکہ مہ لقا بائی چندا کی باؤلی بھی ہے جو حکام کی لاپرواہی اور نظرانداز کئے جانے کی زندہ مثال ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے نزد موجود اس ایفلو یونیورسٹی میں موجود اس 200 سالہ قدیم کنویں کی بہتر دیکھ بھال ضروری ہے کیونکہ یہ ایک تاریخی عمارت ہے۔ ہیرٹیج عمارتوں کی حفاظت کیلئے کئے جانے والے اقدامات اور آثارقدیمہ کے تحت آنے والی اس تاریخی عمارت کی عظمت رفتہ بحالی کیلئے ضروری ہے۔ اس تاریخی عمارت کی تعمیر آصف جاہی دور میں ہوئی ہے اور یہ ایک تین منزلہ کنواں ہے جو کہ نظام کے عہد کی تعمیراتی شاہکار ہے۔ چارکونی یہ کنواں ایک شاندار عمارت ہیں جس کی تین منزلہ طرزتعمیر نہ صرف اپنے اندر تاریخی حقائق پوشیدہ رکھتی ہے بلکہ دیکھنے والے کو فرحت بھی فراہم کرتی ہے لیکن گذشتہ کئی برسوں سے حکام کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ اپنی شان اور بان گنوا رہی ہے۔ یونیورسٹی میں آنے والے طلبہ، اساتذہ اور عوام نے اس جانب جب حکام کی توجہ مبذول کروائی تو 1990ء میں اس کی تزئین نو کی گئی تھی لیکن گذشتہ تین دہوں سے پھر اسے نظرانداز کردیا گیا ہے حالانکہ یونیورسٹی حکام کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی ہے جس پر ایفلو کے وائس چانسلر پروفیسر ای سریش کمار نے کہا ہیکہ یونیورسٹی اس 200 سالہ تاریخی عمارت کی عظمت رفتہ بحالی اور تزئین نو کیلئے اقدامات کرے گی اور محکمہ آثارقدیمہ کے ماہرین سے بھی مدد حاصل کی جائے گی۔ واضح رہے مہ لقا بائی چندا حیدرآباد کی ہی نہیں اردو ادب کی ایک مشہور شخصیت ہے جنہیں پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ مہ لقا بائی چندا غزل کی شاعرہ ہیں اور ان کی اکثر غزلیں پانچ اشعار پر مشتمل ہیں جس میں آخری شہر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ مہ لقا بائی چندا نے حیدرآباد میں کئی مساجد، حویلی اور دیگر عمارتیں بھی تعمیر کروائی ہیں جو کہ ہمارا تاریخی ورثا ہے۔