تلنگانہ کے ڈاکٹرس نظر انداز ، اسسٹنٹ پروفیسرس کی 4 مخلوعہ جائیدادوں پر آندھرا لابی کی نظر
مرکز و ریاست نے ہندوستان کے پہلے کینسر ہاسپٹل کے بانی کو فراموش کردیا
محمد ریاض احمد
حیدرآباد ۔ 21 ۔ جون : شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں قطب شاہی و آصف جاہی حکمرانوں کی ایسی یادگار عمارتیں ہیں جو برسوں گذر جانے کے باوجود اس جمہوری دور میں عوام کی خدمت کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں ۔ قطب شاہی و آصف جاہی حکمرانوں نے جہاں رعایا پروری میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہیں امراء اور متمول طبقہ نے بھی بلا لحاظ مذہب و ملت عام شہریوں کی ہمدردی ان کی خدمت میں خود کو ہمیشہ آگے رکھا ۔ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل ، نظامیہ طبی شفا خانہ ، نظامس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس ، آصف جاہی حکمرانوں کی عوام دوستی کی چند ایک مثالیں ہیں جب کہ حیدرآباد میں طبی تحقیق کو اس قدر عروج پر پہنچایا گیا تھا کہ یہاں ملیریا کے اس طفیلی کا پتہ چلایا جو ملیریا کا باعث بننے والے مچھر کے جسم میں پایا جاتا ہے ۔ اور اس کا سہرا آصف جاہی حکمرانوں کے سر جاتا ہے ۔ جنہوں نے سررونالڈ راس جیسے قابل سرجن کو تحقیق کا موقع فراہم کیا ۔ حکومتوں کی بے حسی اور تعصب کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سررونالڈ راس کو تو یاد رکھا گیا لیکن مسلم حکمرانوں اور امراء کو یکسر فراموش کردیا گیا ۔ نواب مہدی نواز جنگ بھی ان شخصیتوں میں شامل ہیں جنہیں تعصب کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ایک ایسے شخص جس نے مہدی نواز جنگ کینسر ہاسپٹل اینڈ ریڈیم انسٹی ٹیوٹ کی شکل میں قوم کو ملک کا پہلا کینسر ہاسپٹل دیا ہے ان سے بڑے بڑے طبی پراجکٹ موسوم کرنے کی بجائے ان کے قائم کردہ ہاسپٹل سے ہی غفلت برتی جارہی ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آندھرا پردیش کے پہلے وزیر عمارت و شوارع برقی و سربراہی آب نواب مہدی نواز جنگ کے قائم کردہ اس ہاسپٹل میں آندھرا والوں کا راج ہے جب کہ علحدہ تلنگانہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوچکا ہے اور ہندوستان کی 29 ویں نئی ریاست کی شکل میں ریاست تلنگانہ نقشے پر ابھر آئی ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ نواب مہدی نواز جنگ کے قائم کردہ اس ہاسپٹل کا افتتاح ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے 8 دسمبر 1955 کو انجام دیا تھا اس وقت یہ ہاسپٹل صرف 40 بستروں پر مشتمل تھا اور اب تقریبا 58 سال بعد ان بستروں کی تعداد میں صرف 210 کا اضافہ ہوا ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس غیر معمولی ہاسپٹل کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ۔ نواب مہدی نواز جنگ کینسر ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹر پر ایک اور ظلم یہ ہے کہ اس کے تمام شعبوں میں آندھرائی ڈاکٹروں کا تسلط ہے ۔ مثال کے طور پر شعبہ میڈیکل آنکالوجی میں 5 ڈاکٹرس ہیں ان میں آندھرائی چار اور تلنگانہ کا صرف ایک ڈاکٹر شامل ہے ۔ اسی طرح سرجیکل انکالوجی میں جملہ 8 ڈاکٹرس ہیں جس میں آندھرا کے 7 اور تلنگانہ کے ایک ڈاکٹر کو متعین کیا گیا ہے ۔ ریڈیشن انکالوجی کے شعبہ میں بھی اسی قسم کی نا انصافی روا رکھی گئی ہے ۔ وہاں 15 پروفیسروں میں تلنگانہ کا ایک اور آندھرا کے 14 پروفیسرس / ڈاکٹرس ہیں۔ جب کہ تمام نرسیس ، میڈیکل فزسٹ Medical Physicst بھی آندھرا سے تعلق رکھتے ہیں اس کے برعکس گروپ IV کے ملازمین کا تعلق تلنگانہ سے ہے ۔ پیر سے 4 پروفیسرس / ڈاکٹروں کی مخلوعہ جائیدادوں کے لیے کونسلنگ ہونے والی ہے چونکہ علحدہ ریاست تلنگانہ وجود میں آچکی ہے ایسے میں یہاں تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کی بھرتی کا امکان پیدا ہوگیا تھا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ آندھرائی ڈاکٹروں نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت تلنگانہ ڈاکٹرس اسوسی ایشن میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور حد تو یہ ہے کہ وہ اسوسی ایشن کے عہدوں پر بھی فائز ہوگئے ۔ ایسے میں خود تلنگانہ میں تلنگانہ کے ڈاکٹروں سے نا انصافی ہورہی ہے ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہدی نواز جنگ کینسر ہاسپٹل میں آندھرائی ڈاکٹروں کی اجارہ داری پر تلنگانہ کے ڈاکٹروں میں کافی برہمی پائی جاتی ہے اور اس سلسلہ میں ڈپٹی چیف منسٹر و وزیر صحت ڈاکٹر راجیہ کو بھی واقف کروادیا گیا ہے ۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح آندھرائی ڈاکٹرس کی لابی اس ہاسپٹل میں راجیو آروگیہ شری اسکیم سے مستفید ہورہی ہے اور کیسے وہ لوگ تلنگانہ ڈاکٹرس اسوسی ایشن میں خفیہ طور پر داخل ہوگئے ہیں ۔ تلنگانہ کے ڈاکٹروں کا مطالبہ ہے کہ کونسلنگ میں صرف تلنگانہ کے ڈاکٹروں کو موقع دیا جائے ۔ ان ڈاکٹروں کا یہ بھی الزام ہے کہ آندھرائی ڈاکٹروں نے راجیو آروگیہ شری اسکیم سے مبینہ طور پر کروڑہا روپئے بٹوررہے ہیں ۔ یہ ایسے ڈاکٹرس ہیں جو آندھرا میں پوسٹنگ اس لیے نہیں چاہتے کیوں کہ وہ چندرا بابو نائیڈو نے راجیو آروگیہ شری اسکیم برخاست کردی ہے ۔ اس کے علاوہ آندھرائی لابی کونسلنگ میں تلنگانہ کے ڈاکٹروں کے امکانات کو متاثر کرنے کے لیے کم عمر ڈاکٹروں کو کونسلنگ میں شامل کرنے پر زور دے رہی ہے ۔ جب کہ 53 سالہ ڈاکٹر آدی لکشمی تین سال سے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں اور اب وہ ان مخلوعہ جائیدادوں پر تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کی تعیناتی کی مخالفت میں مصروف ہوگئیں ہیں ۔ حال ہی میں ڈپٹی چیف منسٹر و وزیر صحت ڈاکٹر راجیہ نے ایم این جے کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے بآواز بلند کہا اب تلنگانہ علحدہ ہوچکا ہے ۔ آندھرا کے ڈاکٹروں کو آندھرا جانا ہوگا ۔ 5 میں سے 3 او پی آندھرا اور 2 او پی تلنگانہ والوں کے تفویض کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہاں سب تلنگانہ کے ڈاکٹرس رہیں گے ۔ بہر حال اب یہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں کیا اقدامات کرتے ہیں ۔ واضح رہے کہ میونسپل کارپوریشن آف حیدرآباد کے پہلے کمشنر نواب مہدی نواز جنگ کے قائم کردہ اس ہاسپٹل میں یومیہ کینسر کے 850 تا 1000 مریض رجوع ہوتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ہاسپٹل میں نہ صرف تلنگانہ کے ڈاکٹروں سے بلکہ خود نواب مہدی نواز جنگ مرحوم جیسی شخصیت سے انصاف کیا جائے ۔ ملک کے قومی کینسر سنٹر کو ان سے موسوم کیا جائے ۔۔