مہاراشٹرا میں مسلمانوں کو تحفظات

اک موج ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی
شائد کہ بہار آئی ، زنجیر نظر آئی
مہاراشٹرا میں مسلمانوں کو تحفظات
ملک میں کانگریس کے اقتدار والی بڑی ریاستوں میں ایک شمار کی جانے والی مہاراشٹرا ریاست میں مسلمانوں کو ملازمتوں اور تعلیم کے شعبہ میں پانچ فیصد تحفظات فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ وہاں مراٹھا برادری کو 16 فیصد تحفظات بھی فراہم کردئے گئے ہیں۔ مہاراشٹرا کی کانگریس ۔ این سی پی حکومت نے ان تحفظات کا اعلان کیا ہے ۔ ویسے تو گذشتہ چند دنوں سے یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ حکومت ان طبقات کیلئے تحفظات کا اعلان کرسکتی ہے تاہم سیاسی حلقوں میں اس کی مخالفت بھی کی جاتی رہی تھی ۔ بی جے پی نے خاص طور پرا ن تحفظات کی مخالفت کی تھی اور اس نے وہی پرانا راگ الاپا تھا کہ مذہب کی بنیاد پر تحفظات فراہم نہیں کئے جانے چاہئیں اور دستور میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔ بی جے پی ان تحفظات کی مخالفت کرنے کا اعلان کرچکی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ مراٹھا برادری کو تحفظات کی حامی ہے ۔ یہ بی جے پی کا مسلمہ موقف ہے کہ وہ ملک بھر میں کہیں بھی مسلمانوں کو تحفظات کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتی ہے ۔ ویسے بھی مہاراشٹرا میں چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور دو ماہ قبل ہوئے عام انتخابات میں جس طرح سے کانگریس اور این سی پی کو بدترین شکست ہوئی تھی اس کے بعد وہاں برسر اقتدار حلقوں میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے اور یہ حلقے کسی طرح اپنا اقتدار بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اپنے تین معیاد کے اختتامی ایام میں کانگریس ۔ این سی پی اتحاد کو وہاں مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کا خیال پیدا ہوا ہے ۔ بی جے پی نے بھی مخالف مسلم روش اور انتخابات کو دیکھتے ہوئے ان تحفظات کی شدت سے مخالفت پر اتر آئی ہے اور وہ ان تحفظات کو روکنے ہر ممکن جدوجہد کریگی ۔ اس سلسلہ میں وہ واضح اشارے دے چکی ہے ۔ حکومت نے تحفظات کا جو اعلان کیا ہے اس پر فوری اثر کے ساتھ عمل آوری کا بھی اعلان کردیا ہے تاکہ اس کے خیال میں مسلمانوں کو ابتدائی ایام میں اگر کچھ فائدہ حاصل ہوسکے تو اسے بھی انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں مدد مل سکے ۔ حکومت کا یہ ایک خالص سیاسی فیصلہ کہا جاسکتا ہے اور اس کی سیاسی مخالفتوں کے اندیشوں کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔
مہاراشٹرا کی سیاست ان دنوں گرمائی ہوئی ہے ۔ یہاں بی جے پی اور شیوسینا اتحاد بہر صورت اقتدار حاصل کرنے کی فکر میں ہے اور کانگریس ۔ این سی پی اتحاد یہاں اپنا اقتدار بچانے کیا فکر میں جٹا ہوا ہے ۔ ان حالات میں مسلمانوں کیلئے تحفظات کا اعلان دور رس اثرات کا حامل ہوسکتا ہے ۔ چیف منسٹر مہاراشٹرا نے کابینہ کے اجلاس کے بعد تحفظات کا اعلان کیا اور کہا کہ مسلمانوں کو مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ ان کی پسماندگی کی اساس پر یہ تحفظات فراہم کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح مہاراشٹرا میں تحفظات کی حد بڑھ کر 73 فیصد تک جا پہونچی ہے اور اس کو قانونی طور پر چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔ چیف منسٹر سے جب اس تعلق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر کوئی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو حکومت وہاں اپنے موقف کی وضاحت کریگی ۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو صرف اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کو خوش کرنے کی بجائے پہلے ہر پہلو سے اطمینان کرنے کی ضرورت تھی ۔ اب جبکہ حکومت تحفظات کا اعلان کرچکی ہے تو اسے عدالتی کشاکش سے نمٹنے کی تیاری بھی کرنی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ تحفظات کے ثمرات حقیقی معنوں میں مسلمان برادری تک پہونچنے پائیں کیونکہ نہ صرف مہاراشٹرا بلکہ سارے ہندوستان میں مسلمانوں کا حالت سماجی ‘ تعلیمی اور معاشی محاذ پر انتہائی پسماندگی کا شکار ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔
بی جے پی یا اس کی ہم قبیل جماعتیں مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر تحفظات فراہم کرنے کی مخالفت کرتی ہیں لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اب تک جتنے بھی تحفظات دئے گئے ہیں ان سے محض مذہب کی بنیاد ہی پر مسلمانوں کو محروم کیا جاتا رہا ہے اور جتنے بھی تحفظات دئے گئے ہیں ان سے صرف مسلمان مستفید نہیں ہوسکے ہیں۔ غیر مسلم برادریوں کو ہی ان کے ثمرات پہونچنے ہیں۔ اس جانب کسی نے توجہ نہیں دی ہے اور ہر اب حکومتیں ہوں یا غیر سرکاری تنظیمیں سبھی کو اس پہلو پر غور کرتے ہوئے حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان اس ملک میں صدیوں تک حکومت کرنے کے باوجود اب انتہائی ناگفتہ بہ حالت کا شکار ہیں۔ انہیں تحفظات کی فراہمی کے ذریعہ سماج میں دوسروں کے مساوی مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ ایسا کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت مہاراشٹرا کو محض اعلان کی بجائے اب ان تحفظات کو یقینی بنانے کی جدوجہد کرنی چاہئے ۔