مکہ مسجد دھماکے ‘ نوجوانوں کی برات

خشک ہونٹوں سے ہوا کرتی ہیں میٹھی باتیں محسن
پیاس بجھ جائے تو لہجے بھی بدل جاتے ہیں
مکہ مسجد دھماکے ‘ نوجوانوں کی برات
حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد میں ہوئے بم دھماکوں کا کیس اب ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ ان دھماکوں میں پولیس نے جتنے بھی ملزمین کو گرفتار کیا تھا ان کی اکثریت بری ہوتی جا رہی ہے ۔ شہر کی ایک عدالت نے اس کیس کے سلسلہ میں گرفتار کئے گئے چار مسلم نوجوانوں کو کل الزامات منسوبہ سے بری کردیا ۔ ان نوجوانوں کی برات سے مکہ مسجد بم دھماکوں کے مقدمہ میں پولیس کی جانبداری اور متعصب ذہنیت واضح ہوگئی ہے ۔ بعض متعصب عہدیداروں نے اس کیس میں بھی اپنی تنگ نظر ی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلم نوجوانوں ہی کو گرفتار کیا تھا ۔ انہیں غیر انسانی اذیتیں دیتے ہوئے اقبالی بیان دلوائے گئے تھے ۔ انہیں حراست میں لینے کے بعد کئی دن تک خفیہ اذیت خانوں میں رکھتے ہوئے غیر انسانی سلوک کیا گیا اور جب دل کی بھڑاس نکل گئی تب انہیں عدالتوں میں پیش کرتے ہوئے الگ سے ریمانڈ حاصل کیا گیا ۔ اس دوران بھی ان سے پوچھ تاچھ کے نام پر غیر انسانی سلوک کیا گیا ۔ انہیں مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا اور کئی مہینوں تک انہیں ضمانت سے تک محروم رہنے پر مجبور کیا گیا ۔ ان نوجوانوں کی گرفتاریوں کے باعث ان کے خاندانوں کو جن اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ بھی ناقابل بیان ہی کہا جاسکتا ہے ۔ سماج میں انہیں مشکوک بناکر رکھ دیا گیا تھا ۔ رشتہ دار ان سے دوری اختیار کرنے لگے تھے ۔ سماجی سطح پر مقاطعہ کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور ان کیلئے زندگی گذارنا دو بھر ہوگیا تھا ۔ اس سے قبل بھی مکہ مسجد بم دھماکوں کے مقدمہ میں اور بھی جن نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا انہیں بھی بری کردیا گیا اور عدالتوں نے انہیں نہ صرف رہا کیا بلکہ انہیں معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکومتوں کو حکم دیا تھا ۔ ان تمام نوجوانوں کے کیرئیر اس گرفتاری کے نتیجہ میں تباہ ہوگئے اور انہیں کہیں روزگار یا ملازمت ملنی مشکل ہوگئی تھی ۔ حکومتوں نے ان کی رہائی کے بعد بھی ان سے مذاق کیا اور جو نوجوان انجینئرنگ یا دوسری پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر رہے تھے انہیں آٹو دلانے کی پیشکش کی گئی تھی اور یہ ان نوجوانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر تھا ۔ پولیس اور حکومت نے جب جانبداری کی حد کردی تب عدالتوں سے ان نوجوانوں کو راحت نصیب ہوئی اور انہیں عدالتوں نے کردار کے صداقتنامے حوالے کرنے کی بھی ہدایت دی تھی ۔
جب مکہ مسجد میں بم دھماکے ہوئے اس وقت کسی بھی امکان پر غور کئے بغیر بعض متعصب عہدیداروں نے تحقیقات کو ایک سوچا سمجھا رخ دیدیا تھا ۔ مخصوص نوجوانوں کا نام لیتے ہوئے ان کو ان دھماکو ں کا ذمہ دار قرار دیدیا تھا ۔ حالانکہ بعد میں سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے سوامی اسیمانند نے مکہ مسجد بم دھماکوں میں ملوث رہنے اور بم رکھنے کا اقبالی بیان دیا تھا لیکن پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیاں تھیں کہ صرف بے قصور مسلم نوجوانوں کو پھانسنے اور انہیں اذیتیں دینے میں مصروف رہیں۔ مکہ مسجد بم دھماکوں کے سلسلہ میں کئی مقدما ت علیحدہ علیحدہ انداز میں درج کئے گئے اور سبھی مقدمات میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ‘ انہیں غیر انسانی اذیتیں دی گئیں اور پھر جیلوں کو روانہ کردیا گیا ۔ یہاں ان نوجوانوں کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر سوامی اسیمانند نے مکہ مسجد میں بم دھماکے کرنے کا اقبال کرلیا تھا ۔ تحقیقاتی ایجنسیاں اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں اور وہ کسی بھی حال میں مسلم نوجوانوں کو اس مقدمہ میں پھانسنے اور انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا دلانے کی کوشش میں ہی مصروف رہیں۔ جب پولیس ان نوجوانوں کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کرنے میں کامیاب ہوگئی تو وہ ان کے خلاف ثبوت و شواہد جمع نہیں کرسکی اور تقریبا تمام نوجوانوں کو عدالتوں نے الزامات منسوبہ سے بری کردیا ۔
جب اس مقدمہ میں بیشتر گرفتار کردہ نوجوان رہا ہوچکے ہیں اور عدالتوں نے انہیں الزامات منسوبہ سے بری کردیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی خاطی کون ہیں جو اب تک آزاد گھوم رہے ہیں ۔ پولیس اورتحقیقاتی ایجنسیاں جو بھاری فنڈز رکھتی ہیں ان رقومات کو ضائع کر رہی ہیں اور ملک کی داخلی سلامتی کیلئے خطرہ بننے والے واقعات میں بھی حقیقی خاطیوں کو گرفتار کرنے میں انہیں کامیابی نہیں مل سکی ۔ انہوں نے بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا ۔ اس پر الگ ان کی سرزنش ہو رہی ہے اور حقیقی خاطی کھلے عام پھر رہے ہیں۔ جو ملزمین اس کیس میں اپنے جرم کا اقبال کر رہے ہیں کھلے عام میڈیا میں اور عدالتوں میں بیان دے رہے ہیں ان کے تعلق سے پولیس نے انتہائی غیر سنجیدہ اور لا پرواہ رویہ اختیار کیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس حقیقی خاطیوں کو گرفتار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی اور اس نے صرف مسلم نوجوانوں کو اذیتیں پہونچانے کے اپنے عزائم کی تکمیل کو ہی اصل مقصد بنالیا تھا ۔ اب مزید چار نوجوان اس کیس میں بری کردئے گئے ہیں اور اس سے پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کی پیشہ ورانہ دیانت اور ان کی غیر جانبداری پر سوال پیدا ہوگئے ہیں۔