موٹاپا اور بیماری کا خطرہ

طرز زندگی اور صحت سے متعلق دیگر عوامل سے قطع نظر ایک بات حتمی ہے کہ اوسط وزن کے حامل افراد کے مقابلے میں زیادہ وزن والے افراد کے بیماری کے بعد اسپتال پہنچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بات ایک نئی آسٹریلوی طبی تحقیق کے باعث سامنے آئی ہے۔ انٹرنیشنل جرنل آف اوبیسیٹی میں شائع شدہ اس تحقیق کے مطابق یہ معاملہ محض بہت زیادہ موٹے افراد کے ساتھ نہیں بلکہ ان افراد کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے جن کا وزن تھوڑا سا بھی زیادہ ہو۔ تحقیق کے مطابق درمیانی عمر کے بالغ افراد کے باڈی ماس انڈیکس BMI میں محض ایک پوائنٹ کا اضافہ جوکہ وزن میں 2.7 سے 3.2 کلوگرام اضافے کو ظاہر کرتا ہے اور hospitalisation کے خدشات کو چار فیصد بڑھا دیتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان خدشات سے موٹاپے یا زیادہ وزن کے حامل افراد کو دو سال کے اندر اندر دوچار ہونا پڑتا ہے۔ تحقیقی گروپ کی نگراں روزمیری کورڈا کے بقول اس بارے میں بہت زیادہ شواہد موجود ہیں کہ موٹاپا صحت کے لئے مضر ہے اور یہ بیماری، علالت کے دوران زیادہ اخراجات کرنے اور بالآخر موت کا سبب بنتا ہے۔
روزمیری کورڈا کہتی ہیں کہ BMI بڑھنے سے براہ راست صحت کو لاحق خطرات بڑھ جاتے ہیں یعنی سادہ الفاظ میں محض موٹا ہونا ہی صحت کے لئے خطرناک ہے۔ آسٹریلیا کے صوبے نیو ساؤتھ ویلز میں اس طبی تحقیق کے لئے اُن ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کا معائنہ کیا گیا، جن کی عمر پینتالیس برس سے زیادہ تھی۔ ان افراد کے قد، عمر اور صحت سے متعلق دیگر ڈیٹا کا دو برس تک تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کے ان ڈھائی لاکھ افراد میں سے 60 ہزار سے زائد کو مختلف عوامل کے سبب اسپتال میں کم از کم ایک رات گزار چکے ہیں۔ نارمل وزن کے حامل افراد کے اسپتال میں داخل ہوجانے کے امکانات اس کے مقابلے میں بہت کم تھے۔BMI کے تحت 20 سے 30 پوائنٹس کے حامل افراد کو زیادہ وزن کا حامل اور 30 سے اوپر والوں کو موٹا قرار دیا جاتا ہے۔ آسٹریلین یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل افراد سے ان کی عمومی عادات مثال کے طور پر سگریٹ نوشی اور ورزش کرنے یا نہ کرنے کے بارے پوچھا گیا تھا۔
کچھ غلط عادات جو نقصاندہ ہیں
امریکہ کا مشہور ڈاکٹر ،دیپک چوپڑا اپنے قیمتی مشوروں سے لوگوں کو زندگی بسر کرنے کے ڈھنگ سکھاتا ہے۔اس کا قول ہے:’’آپ اپنی سوچ،رویّوں،طرز حیات اور کھانے پینے کی عادات کو مثبت رخ دے کر عمر کے 30تا 40 برس بڑھا سکتے ہیں۔‘‘درج بالا قول سولہ آنے سچ ہے۔انسان اگر اچھی سوچ رکھے، صحت بخش غذا کھائے،متحرک رہے اور نیند پوری لے،تو تندرستی کی لازوال دولت پا سکتا ہے۔تاہم صحت پانے کے چکر میں روزمرہ معمولات انجام دیتے بہت سے لوگ ایسے عمل بھی اپنا لیتے ہیں جو فائدہ کم،نقصان زیادہ پہنچاتے ہیں۔ذیل میں انہی اعمال کا تذکرہ پیش ہے اور انھیں درست طریقے سے اپنانے کا سلیقہ بھی!
دانت برش کرنا : بچوں بڑوں میں یہ نظریہ مقبول ہو چکا کہ ہر کھانے کے بعد دانت برش کرنے چاہئیں تاکہ وہ جراثیم سے پاک رہ سکیں۔مسئلہ یہ ہے،بہت سی غذائیں ہمارے دانتوں پہ تیزابی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ چنانچہ تیزاب کی موجودگی سے دانتوں کی حفاظت کرنے والا قدرتی مادے،اینمل کمزور پڑ جاتاہے۔ لہذا جب ہم کھانے کے فوراً بعد دانت برش کریں،تو کمزور ہوئے اینمل کا کچھ حصہ اتر سکتا ہے۔اور جب اینمل نہ رہے ،تو ہمارے دانت بھربھرے ہو کر بوسیدگی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔اس خرابی سے بچنے کا طریق کار یہ ہے کہ کھانے کے بعد صرف کُلی کیجیے تاکہ دانتوں میں پھنسے غذائی ریشے باہر نکل جائیں۔جبکہ صرف رات اور صبح کو نرمی سے دانت صاف کریں۔ مزید براں جدید تحقیق سے انکشاف ہوا ہے ، دانت صاف کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ برش کو دانتوں پہ گھمایا جائے۔یوں دانتوں اور مسوڑھوں سے چمٹے جراثیم دور ہو جاتے ہیں۔جبکہ دائیں بائیں یا اوپر نیچے برش کرنے سے نہ صرف جراثیم صحیح طرح صاف نہیں ہوتے، بلکہ مسوڑھوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
ایک وقت کا کھانا چھوڑنا : کئی مرد و خواتین ناشتہ یا دوپہر کا کھانا یہ سوچ کر نہیں کھاتے کہ وہ اگلے وقت کھا لیں گے۔ایسے لوگ مصروف یا پھر کم کھا کر وزن کم کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ مگراس چلن میں خرابی یہ ہے کہ غذا نہ ملے،تو نہ صرف ہماری بھوک بڑھتی ہے،بلکہ ہمارا جسم بے چینی کا بھی اظہار کرتا ہے۔اسی لئے انسان عموماً بعد ازاں ایک آدھ چپاتی زیادہ کھا جاتا اور یوں موٹاپے کو دعوت دیتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ ناشتہ کیجیے اور دوپہر کا کھانا کھائیے۔یوں رات کو آپ

دسترخوان پہ بیٹھے،تو ہرگز یہ تمنّا نہیں کریں گے کہ پلیٹ سالن سے بھر لیں۔
بوتل والا پانی پینا: ہمارے ہاں بوتل والا(Bottled)پانی پینے کا رواج جڑ پکڑ چکا۔وجہ یہی کہ نلکے کے پانی کو جراثیم آلودہ اور گندا سمجھا جاتا ہے۔مگر بوتل والے پانی کا نقصان یہ ہے کہ اس میں فلورائڈ موجود نہیں ہوتا۔ یہ قدرتی نمک ہمارے دانتوں کو شکست و ریخت سے بچاتا ہے۔اسی باعث ماہرین طب اب مشورہ دیتے ہیں کہ واٹر فلٹر سے نکلا پانی نوش کیجیے۔فلٹر پانی کو تمام جراثیم اور آلودگی سے پاک کر دیتا ہے،مگر اس میں موجود فلورائڈ ضائع نہیں کرتا۔
ملٹی وٹامن گولیوں کا استعمال : آج خصوصاً تعلیم یافتہ خواتین و حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ فارمی غذائوں میں غذائیت (وٹامن و معدنیات)نہیں ہوتی۔سو وہ ملٹی وٹامن گولی تقریباً روزانہ کھا کر مطلوبہ غذائیت پانے کی سعی کرتے ہیں۔ مگر جدید تحقیق انکشاف کر چکی کہ فارمی اور دیسی غذائوں میں ذائقے کا فرق تو ہوتا ہے، غذائیت کے معاملے میں وہ تقریباً یکساں ہوتی ہیں۔ اسی لئے وٹامن والی گولیوں کا خصوصاً روزانہ استعمال نقصان دہ بھی بن سکتا ہے۔وجہ یہ کہ جب انسانی بدن میں بعض وٹامن یا معدنیات کثیر تعداد میں جمع ہو جائیں،تو وہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پہ وٹامن اے کی زیادتی شکم میں نشوونما پاتے بچے کو معذور بنا سکتی ہے۔وٹامن سی کی سطح بڑھ جائے،تو وہ معدے کا نظام تہ وبالا کر ڈالتا ہے۔وٹامن بی کی زیادتی سے ہمارے اعصاب پہ بُرا اثر پڑتا ہے۔ درج بالا خرابیوں کے باعث ہی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ مطلوبہ غذائیت ملٹی وٹامن گولیاں نہیں صحت بخش خوراک کھا کر حاصل کیجیے۔حتی کہ جسم میں کسی وٹامن یا معدن کی کمی ہو جائے،تو ایسی غذائیں کھائیے جن میں وہ بکثرت ملتا ہو۔مثلاً آپ میں کیلشیم کی کمی ہے،تو پالک کھائیے یا دودھ پیجئیے۔