قرآن پاک میں فرمایا گیا: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے‘‘ (التوبہ۔۱۱۱) جب ہم اللہ تعالی سے اپنی جان اور مال کے بدلے میں جنت کا یہ سودا کرچکے ہیں تو یہ جان اور مال اب ہماری ملکیت نہیں رہے۔ اب اس جان و مال پر ہمارا قبضہ اور تصرف نہیں رہا، اب ہم آزاد نہیں، بکے ہوئے ہیں۔ اپنے نہیں اس کے ہیں۔ ہمارا سونا، جاگنا، اٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا، لین دین، خرید و فروخت، زر اور زمین، سیاست و تجارت، سفارت اور حکومت کوئی چیز بھی تو اپنی نہیں رہی۔ ان تمام امور میں اب ہمارا تصرف نہیں رہا، کسی چیز پر ہمارا اختیار نہیں۔ یہ تمام امور اب اس کے تصرف کے تابع ہیں اور اس کے اذن اور حکم کے بغیر اگر ہم ذرہ برابر بھی کسی چیز میں تصرف کرتے ہیں اور اس کی مرضی و منشاء کے خلاف ان امور میں اپنی رائے اور خواہش کے مطابق عمل کرتے ہیں تو اس کے دو ہی مطلب ہیں، یا تو ہنوز ہم نے خدا سے یہ سودا نہیں کیا یا سودا کرنے کے بعد اور اپنی جان و مال کو اس کے ہاتھ فروخت کرنے کے بعد بھی ہم اس کی ملکیت میں اس کی اجازت اور مرضی کے بغیر اپنی خواہش سے تصرف کر رہے ہیں۔ غور کیجئے! کیا ہم خود اس بات پر راضی ہوں گے کہ کسی شخص سے کوئی چیز خریدنے کے بعد بھی وہ شخص اس چیز میں تصرف کرتا رہے؟ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ ایک شخص کوئی چیز فروخت کرنے کے بعد بھی فروخت شدہ چیز پر اپنا تصرف اور قبضہ برقرار رکھے۔ پھر کائنات میں اس سے بڑھ کے اور کوئی ستم کیا ہوگا کہ جس سلوک کو ہم اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے، ظلم و ستم کا وہ رویہ ہم نے مسلسل اور شب و روز خالق کائنات کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔
اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے: ’’رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) مسلمانوں کی جانوں اور مالوں پر ان سے زیادہ تصرف رکھتے ہیں‘‘ (الاحزاب۔۶) مثلاً ہم سونا چاہتے ہوں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو کہ اس وقت نماز پڑھو تو اگر ہم اپنے آپ کو رسول اللہ کا غلام اور انھیں اپنی جان و مال کا مالک سمجھتے ہیں تو ہم اس وقت سو نہیں سکتے، بلکہ ہمیں اٹھ کر نماز پڑھنی ہوگی۔ اسی طرح رمضان میں ہم دن کے وقت کھانا چاہیں اور عید کے دن کھانا چھوڑنا چاہیں تو رمضان میں دن کے وقت کھا نہیں سکتے اور عید کے دن کھانا چھوڑ نہیں سکتے، کیونکہ ہمیں اپنے اوپر وہ اختیار نہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے اوپر حاصل ہے۔
کسی چیز کو فروخت کرنا ایک عام سا کام ہے، لیکن اس کی تفصیل پر غور کیجئے!۔ بظاہر یہ مال اور جنس ہماری ملکیت ہیں، لیکن ہم جس جگہ اس چیز کو فروخت کرنا چاہیں نہیں کرسکتے، کیونکہ مسجد میں بیع و شراء سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا ہے۔ جس وقت فروخت کرنا چاہیں یہ بھی نہیں ہوسکتا، کیونکہ نماز اور جماعت کے وقت خرید و فروخت حرام ہے۔ جس شخص کو چاہیں فروخت کردیں، یہ بھی ممکن نہیں، کیونکہ پڑوسی اور شریک کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حق دیا ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر ہم اپنی زمین وغیرہ کو فروخت نہیں کرسکتے اور جس قیمت کے عوض فروخت کرنا چاہیں یہ بھی نہیں ہوسکتا، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، مردار اور نجس چیزوں کے عوض کسی چیز کو بیچنے سے منع فرمادیا ہے۔
غور کیجئے! کہ مال بظاہر ہمارا ہے، لیکن اگر ہم اپنے آپ کو اللہ تعالی کا بندہ اور اس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام سمجھتے ہیں تو جس جگہ چاہیں، جس وقت چاہیں، جس شخص کو چاہیں اور جس قیمت پر چاہیں فروخت نہیں کرسکتے۔ اسی لئے اپنی خواہش سے نہ سو سکتے ہیں اور نہ جاگ سکتے ہیں۔ نہ اپنی مرضی سے کھانا کھانے کا اختیار ہے اور نہ کھانا چھوڑنے کا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی منشاء اور اس کے رسول برحق کی مرضی کے بغیر نہ ہمیں اپنی جان پر اختیار ہے نہ اپنے مال پر۔