بدعنوانیوں کے خلاف احتجاج پر پولیس کے ذریعہ کارروائی
تنظیم انصاف کے احتجاجیوں کو حراست میں لے لیا گیا ۔ حکام کے رویہ پر سابق ایم پی جناب عزیز پاشاہ کی تنقید
حیدرآباد۔/28اپریل، ( سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف کسی کو آواز اُٹھانے کی اجازت نہیں اور جو کوئی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرے اس پر بیجا الزامات عائد کرکے کارروائی کی روایت چل پڑی ہے۔ یونیورسٹی حکام نے اب تو بیرونی افراد کی آواز کچلنے کی بھی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ جمہوریت میں ہر شخص کو اظہار خیال کی آزادی ہے اور کوئی بھی شخص یا ادارہ کسی ادارہ کی بے قاعدگی کے خلاف احتجاج کا مکمل حق رکھتا ہے لیکن وائس چانسلر اور انکے حواریوں نے سی پی آئی کی محاذی تنظیم انصاف کے قائدین اور کارکنوں کو نہ صرف احتجاج سے روک دیا بلکہ پولیس کے ذریعہ انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ تنظیم انصاف کے قائدین پر مشتمل وفد مختلف بے قاعدگیوں کے سلسلہ میں وائس چانسلر سے ملاقات کا منصوبہ رکھتا تھا اور انہوں نے وائس چانسلر سے ملاقات کیلئے وقت مانگا لیکن احتجاج کی اطلاع ملتے ہی وائس چانسلر نے مقامی پولیس کے ذریعہ یونیورسٹی کے باب الداخلہ کو پولیس چھاؤنی میں تبدیل کردیا اور انصاف کے قائدین اور کارکنوں کو ملاقات کا موقع دیئے بغیر حراست میں لے لیا گیا۔ تنظیم انصاف کے قائدین وائس چانسلر کو مختلف بے قاعدگیوں کے سلسلہ میں یادداشت پیش کرنا چاہتے تھے لیکن وائس چانسلر نے نہ صرف ملاقات سے انکار کیا بلکہ پولیس کے ذریعہ ان کی اہانت کی کوشش کی جس پر وہاں موجود یونیورسٹی کے طلبہ خود بھی حیرت میں پڑ گئے۔ایک طرف یونیورسٹی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ کسی بھی مسئلہ پر وضاحت طلب کرنے کیلئے ملاقات کرسکتا ہے لیکن افسوس کہ ایک تنظیم کے وفد کے ساتھ نامناسب سلوک کیا گیا اور وائس چانسلر کا ملاقات سے انکار کرنا از خود یونیورسٹی میں بے قاعدگیوں کا کھلا ثبوت ہے۔ انصاف کے قائدین سید کلیم الدین صدر آل انڈیا تنظیم انصاف، محمد خان، سالم جابری، خواجہ پاشاہ، سید اعجاز اللہ حسینی، عزیز خان اور دوسروں کو پولیس نے حراست میں لے لیا جبکہ وہ پُرامن انداز میں وائس چانسلر سے ملاقات کے خواہاں تھے۔ انصاف کے قائدین نے الزام عائد کیا کہ وائس چانسلر نے مقامی پولیس کو بھی اپنے اشارہ پر کام کرنے کیلئے مجبور کیا ہے۔ تنظیم نے وائس چانسلر اور ان کے حواریوں کی بے قاعدگیوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اسی دوران سی پی آئی قائد اور سابق رکن راجیہ سبھا سید عزیز پاشاہ نے یونیورسٹی حکام کے رویہ کی مذمت کی اور مرکز سے مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی میں مبینہ مالی اور انتظامی بے قاعدگیوں کی سی بی آئی تحقیقات کا اعلان کرے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ وائس چانسلر کی پانچ سالہ میعاد کے دوران کئے گئے تمام اہم فیصلوں کی تحقیقات کی جانی چاہیئے۔ انہوں نے الزام عائد کیاکہ وائس چانسلر جو12مئی کو سبکدوش ہورہے ہیں انہوں نے 15زمرہ جات کے تحت اہم عہدوں پر تقررات کا عمل شروع کیا ہے جن میں رجسٹرار، کنٹرولر اور فینانس آفیسر جیسے اہم عہدے شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ جس جلد بازی میں اہم عہدوں پر تقررات کئے جارہے ہیں اس سے کئی شبہات پیدا ہورہے ہیں اور سابقہ تجربات کی بنیاد پر بے قاعدگیوں کی گنجائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ 150 عہدوں پر تقررات میں اہلیت، تجربہ اور دیگر قواعد کو یکسر نظرانداز کردیا گیا اور یہ عہدے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے چوکیداروں کو بھی اتر پردیش سے درآمد کیا ہے جبکہ مقامی سطح پر تقررات کئے جاسکتے تھے۔ عزیز پاشاہ نے وزیر فروغ انسانی وسائل اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ سی بی آئی تحقیقات کا اعلان کرے۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے قیام کا مقصد اردو کا فروغ اور ترقی ہے لیکن یونیورسٹی میں 80 فیصد اسٹاف غیر اردو داں ہے۔