کئی شعبہ جات کی کارکردگی صفر ، ویب سائیٹ کے گمراہ کن اندراجات کو بھی بدلنے کی توفیق نہیں
حیدرآباد ۔ 22 ۔ جون (سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اعلیٰ حکام کے من مانی فیصلوں نے یونیورسٹی کے کئی شعبہ جات کی کارکردگی کو ٹھپ کردیا ہے۔ وائس چانسلر اور دیگر عہدوں پر فائز افراد اداروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہے جس کے نتیجہ میں یونیورسٹی کا کام کاج بری طرح متاثر ہوگیا۔ 1998 ء کو سنٹرل ایکٹ کے تحت یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور اس کے اغراض و مقاصد طئے کئے گئے لیکن گزشتہ 16 برسوں میں یونیورسٹی اپنے قیام کے ایک بھی مقصد کی تکمیل میں کامیاب نہ ہوسکی۔ میڈیا میں یونیورسٹی میں جاری بے قاعدگیو ں اور قواعد کی خلاف ورزی سے متعلق مختلف انکشافات پر ہمیشہ یونیورسٹی کی جانب سے تردید کی گئی لیکن یونیورسٹی حکام نے غلطیوں کی اصلاح پر کوئی توجہ نہیں دی۔ یوں تو یونیورسٹی کے کئی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں اور برائے نام طور پر اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں۔ یونیورسٹی نے کئی نئے شعبہ جات اور ادارے قائم کئے لیکن ان میں سے بیشتر اداروں کی کارکردگی صفر ہے۔ حالیہ عرصہ میں روزنامہ سیاست نے یونیورسٹی کے انسٹرکشنل میڈیا سنٹر کے بارے میں رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اس ادارہ کے بارے میں یونیورسٹی کے ویب سائیٹ پر گمراہ کن معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس ادارہ کے وجود کو برقرار رکھنے اور اپنی خامیوں کو چھپانے کیلئے آج تک بھی یونیورسٹی نے ویب سائیٹ پر اس ادارہ کے بارے میں تفصیلات کو درست نہیں کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کی انگریزی اور اردو ویب سائیٹ پر فراہم کی گئی تفصیلات میں کافی فرق ہے۔ انگریزی ویب سائیٹ پر دعویٰ کیا کہ انسٹرکشنل میڈیا سنٹر میں نصاب سے متعلق آڈیو اور ویڈیو پروگرامس تیار کئے جارہے ہیں جنہیں دوردرشن کے اردو چیانل پر ٹیلی کاسٹ کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوردرشن سے اردو یونیورسٹی کا معاہدہ ختم ہوگیا اور ای ٹی وی اردو پر ہفتہ میں ایک مرتبہ یونیورسٹی کی پرانی ڈاکیومینٹریز ٹیلی کاسٹ ہورہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 2007 ء میں یہ ادارہ قائم ہوا لیکن 2010 ء سے اس سنٹر کی کارکردگی عملاً مفلوج ہوچکی ہے۔ میڈیا سنٹر اور اس کی کارکردگی سے اعلیٰ حکام کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سبکدوش وائس چانسلر نے اپنے علاقہ سے تعلق رکھنے والے ایک غیر اردو داں شخص کو میڈیا سنٹر کا ڈائرکٹر مقرر کردیا۔ اس عہدہ پر تقرر کیلئے اردو میں لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت لازمی ہے لیکن موجودہ ڈائرکٹر نہ صرف اردو سے نابلد ہیں بلکہ ان کے بعض اقدامات مخالف اردو کہے جاسکتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اعلیٰ حکام کی سرپرستی کے سبب ڈائرکٹر نے اردو پروگراموں کی تیاری پر کوئی توجہ نہیں دی جس کے باعث میڈیا سنٹر کا وجود بے معنیٰ ہوچکا ہے۔ میڈیا سنٹر میں کئی بے قاعدگیوں کی بھی اطلاعات ملی ہیں، اگرچہ 2010 ء کوئی نئی ڈاکیومینٹری اور آڈیو یا ویڈیو پروگرام تیار نہیں کئے گئے لیکن بجٹ مختلف عنوانات سے خرچ کیا جارہا ہے ۔ یونیورسٹی اور دوردرشن اردو چیانل کے معاہدہ کو ختم ہوئے طویل عرصہ ہوگیا لیکن ابھی بھی ویب سائیٹ پر اسی معاہدہ کا تذکرہ موجود ہے۔ بتایا جاتاہے کہ جو ڈاکیومینٹریز پیش کی جارہی ہیں ، وہ عام نوعیت کی ہیں اور ان کا فاصلاتی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ میڈیا سنٹر کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ 2010 ء سے یونیورسٹی کا میڈیا سنٹر عملاً مفلوج ہوچکا ہے اور اس سنٹر سے وابستہ افراد کو اعلیٰ حکام کی جانب سے ہراسانی کا سلسلہ جاری ہے۔ جو کوئی بھی ادارہ کی کارکردگی بہتر بنانے میں دلچسپی کا اظہار کرے ، اسے کسی نہ کسی طریقہ سے ہراساں کرتے ہوئے بے قاعدگیوں کو چھپانے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ اس سنٹر سے وابستہ افراد اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ میڈیا سے بات کرنے تیار نہیں کیونکہ انہیں ہرلمحہ تادیبی کارروائی کا اندیشہ ستا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ میڈیا سنٹر صرف پرانی ڈاکیومنٹریز اور پروگرامس کی حفاظت کا کام کر رہا ہے جس میں تقریباً 150 پروگرام اور 50 ڈاکیومینٹریز ہیں۔ یہ ادارہ راست طور پر وائس چانسلر اور رجسٹرار کے کنٹرول میں ہے۔ بتایا جاتاہے کہ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے پروگراموں سے استفادہ کیلئے تین سال کا معاہدہ کیا گیا تھا جس کی میعاد ختم ہوگئی ، لیکن یونیورسٹی حکام کو معاہدہ کے احیاء اور نئے پروگراموں کی تیاری سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس بارے میں جب یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے ربط قائم کیا گیا تو ان کا کہنا تھا بجٹ کے خرچ کیلئے میڈیا سنٹر موجود ہے لیکن اس کی ترقی سے کسی کو دلچسپی نہیں۔ یونیورسٹی کے قیام کو 16 سال مکمل ہونے کے باوجود کسی بھی وائس چانسلر نے اردو ویب سائیٹ کی تیاری پر توجہ نہیں دی جبکہ یونیورسٹی خالص اردو یونیورسٹی ہے۔ سیاست کی جانب سے اس بارے میں رپورٹ کی اشاعت کے بعد پبلک ریلیشن ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار کو اس کی ذمہ داری سے سبکدوش کرتے ہوئے اردو ویب سائیٹ کا کام سونپ دیا گیا۔ ابھی تک اردو ویب سائیٹ نامکمل ہے اور اردو اور انگریزی ویب سائیٹ پر فراہم کردہ تفصیلات میں کافی تضاد ہے۔ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ جب یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد غیر اردو داں ہیں تو پھر ان سے اردو یونیورسٹی کی ترقی اور اردو ویب سائیٹ کی تیاری کرنا فضول ہوگا۔