یونیورسٹی حکام سے فائیلوں کی جانچ، وائی فائی پر کمیشن، محمد میاں سابق وائس چانسلر کی رشوت ستانی کی بھی تحقیقات
حیدرآباد۔/26جنوری، (سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں گزشتہ کئی برسوں کی بے قاعدگیوں کے بارے میں روز نامہ ’سیاست‘ کے انکشافات کا اثر اب دکھائی دینے لگا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے بعض بے قاعدگیوں کی جانچ کا اعلان کیا اور اس سلسلہ میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی۔ یونیورسٹی میں وائی فائی سہولت کی فراہمی، یونیورسٹی ویب سائٹ کی تیاری اور منی پال کے پریس میں نصابی کتب کی اشاعت جیسے معاملات کی جانچ کیلئے پروفیسر محمد سلیمان صدیقی کی صدارت میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی۔ کمیٹی کے ارکان میں پروفیسر آئی بی رام پرساد راؤ اور پروفیسر پی ایس این ریڈی شامل کئے گئے ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی ان تینوں معاملات کی تفصیلی جانچ کرتے ہوئے وائس چانسلر کو رپورٹ پیش کرے گی۔ پروفیسر سلیمان صدیقی اور ان کی ٹیم نے یونیورسٹی میں تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور یونیورسٹی حکام سے ان معاملات سے متعلق فائیلیں طلب کی ہیں۔ واضح رہے کہ وائس چانسلر کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ڈاکٹر اسلم پرویز نے گزشتہ 18برسوں کے دوران تقررات، ترقی اور دیگر معاملات میں مبینہ بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کی جانچ کا آغاز کردیا ہے۔ ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ دونوں شعبوں میں قواعد کی خلاف ورزی کے ذریعہ تقررات اور ترقی کی جانچ کی جائے گی۔ انہوں نے تمام ملازمین کی اہلیت اور موجودہ پوزیشن سے متعلق تفصیلات طلب کی ہیں۔ واضح رہے کہ سابقہ وائس چانسلرس کے دور میں اہم عہدوں پر تقررات میں قواعد کی صریح خلاف ورزی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف سہولتوں کی فراہمی کے سلسلہ میں بھاری رقومات کا خرد برد کیا گیا۔ روز نامہ ’سیاست‘ نے ان تمام بے قاعدگیوں کو وقفہ وقفہ سے بے نقاب کیا لیکن سابق وائس چانسلر، سابق انچارج وائس چانسلر اور ان کے حواری حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے تردید کرتے رہے۔ یونیورسٹی میں 10تا15اکٹوبر کو ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کے علاوہ طلباء نے بے قاعدگیوں کے خلاف احتجاج منظم کیا تھا۔ اس موقع پر بعض ناخوشگوار واقعات پیش آئے اور غیر سماجی عناصر کے ذریعہ طلباء اور اساتذہ کو مارپیٹ کی گئی تھی۔ موجودہ وائس چانسلر نے ان معاملات کی جانچ کیلئے تحقیقاتی کمیشن قائم کیا ہے اور محمد فاروق عثمان ریٹائرڈ جج کو تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی۔ وہ تمام فریقین سے تفصیلات حاصل کرتے ہوئے بیانات قلمبند کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی جیسی وسیع و عریض احاطہ پر محیط ادارہ میں وائی فائی کی سہولت کیلئے 3کروڑ روپئے خرچ کئے گئے تھے لیکن بتایا جاتا ہے کہ اردو یونیورسٹی میں اس سہولت کیلئے تقریباً 7کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔ اس سلسلہ میں 20فیصد رقم بطور کمیشن حاصل کرنے کی شکایت ملی ہے۔ کرناٹک کے منی پال میں یونیورسٹی کی فاصلاتی تعلیم سے متعلق کتابوں کی اشاعت پر تقریباً 5کروڑ روپئے خرچ کئے گئے جبکہ یہ کتابیں حیدرآباد، دہلی یا لکھنؤ میں پرنٹ کی جاسکتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کرناٹک سے تعلق رکھنے والے وائس چانسلر کے دور میں یہ آرڈر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیراردو داں افراد کا اہم تدریسی عہدوں پر تقرر کیا گیا۔ 60 فیصد افراد اردو سے نابلد ہیں اور ان کے تقررات کے بارے میں بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ جس وقت انہیں تقرر کے احکامات دیئے گئے ایک سال میں اردو سیکھنے کی شرط رکھی گئی تھی لیکن آٹھ تا دس برس گذرنے کے باوجود غیر اردو داں تدریسی عملہ اردو سے نابلد ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے جن معاملات کی جانچ کا مطالبہ کیا گیا ان میں سابق وائس چانسلر محمد میاں کی جانب سے ڈی اے کے طور پر تقریباً دیڑھ کروڑ روپئے کے حصول کا معاملہ شامل ہے۔ موجودہ وائس چانسلر کو یونیورسٹی میں سدھار، بے قاعدگیوں کے خاتمہ اور اصلاحات کے نفاذ میں قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا ہے تاہم وہ جرأتمندی کے ساتھ صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جن نااہل افراد کو ترقی دی گئی، جانچ میں ثابت ہونے پر ان کی تنزلی کا فیصلہ کیا گیاہے۔