مودی کے وعدے اور مہنگائی

عادت مجھے اندھیروں سے ڈرنے کی ڈال کر
اک شخص مری زندگی میں شام کر گیا
مودی کے وعدے اور مہنگائی
ملک میں عام انتخابات کی مہم کے دوران بی جے پی کے وزارت عظمی امیدوار کی حیثیت میں نریندر مودی نے عوام سے بے شمار وعدے کئے تھے ۔ عوام کیلئے سب سے پرکشش جو وعدہ رہا تھا وہ قیمتوں پر قابو پانے اور عوام کو مہنگائی سے راحت دلانے کا وعدہ تھا ۔ اس وعدہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ملک کے عوام نے پورے جوش و خروش کے ساتھ نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا اور مودی کو توقعات سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ۔ وہ اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کرتے ہوئے ملک کی وزارت عظمی پر فائز ہوگئے ۔ اس عہدہ پر براجمان ہونے کے ساتھ ہی مودی سے عوام کو توقعات وابستہ ہوگئی تھیں کہ وہ عوام کیلئے کچھ کرینگے ۔ خود مودی نے بھی کہا تھا کہ ان سے عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ لیکن ان توقعات کو پورا کرنے کی بجائے مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ عوام پر مسلسل بوجھ عائد کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔ بہانے اور جواز تلاش کرتے ہوئے عوام کو نت نئے انداز سے معاشی بوجھ کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ پہلے تو گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی بات کہی تھی لیکن اس پر خاموشی اختیار کرلی ۔ اچانک ہی ریلوے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیا گیا ۔ مسافر بردار کرایہ میں 14.2 فیصد کا اضافہ ہوا اور باربرداری کی شرح میں 6.5 فیصد بڑھا دیا گیا ۔ باربرداری کی شرح میں اضافہ سے ملک میں افراط زر کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا اور مہنگائی کم ہونے کی بجائے بڑھے گی ۔ اب معلوم ہوا ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت پکوان گیس کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ شروع کریگی ۔ ایک ہی وقت میں عوام پر اضافہ کا بوجھ عائد کرنے کی بجائے مرحلہ وار انداز میں عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالا جائیگا ۔ سبسڈی پر فراہم کئے جانے والے پکوان گیس سلینڈر کی قیمت پر ہر ماہ دس روپئے کا اضافہ کیا جائیگا ۔ یہ ایک چال ہے تاکہ عوام پر بیک وقت بوجھ عائد نہ ہو اور عوام برہم ہونے کی بجائے مرحلہ وار انداز میں اس بوجھ کو برداشت کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔ حالانکہ ابھی اس تجویز پر قطعیت سے فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن اس کا پورا اندیشہ ہے کہ مودی حکومت کے پہلے بجٹ میں عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے ان پر بوجھ عائد کرنے کے اقدامات زیادہ ہونگے ۔ یہ اس حکومت کی حکمت عملی ہے جس نے عوام سے اچھے دن واپس لانے کے وعدے پر ووٹ حاصل کیا تھا ۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ہندوستانی معیشت بیمار ہے اور اسے صحت مند بنانے کیلئے کڑوی گولیوں کی ضرورت ہے ۔ نریندر مودی بھی گذشتہ دنوں اشارے دے چکے تھے کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے سخت اور مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کی معیشت نے گذشتہ دو دہوں میں جو ترقی کی ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن یہ ایک حقیقت ایسی بھی ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا ۔ یہ حقیقت ملک کے متوسط اور غریب عوام کی حالت ہے جو ملک کی زبردست ترقی کے باوجود بدلی نہیں ہے اور وہ وہی دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانکنے کیلئے دو کپڑوں کیلئے اپنی ساری زندگی جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ ہندوستان نے ترقی کی ہے لیکن یہ ترقی چند سرمایہ داروں اور بڑے بڑے تاجر گھرانوں تک محدود رہے ہیں۔ اب اگر معیشت کی ترقی کی رفتار متاثر ہو رہی ہے تو اس کا اثر بھی نہ عام آدمی پر ہونے والا ہے اور نہ متوسط طبقہ پر ۔ اس کا اثر صرف تاجر اور سرمایہ دار طبقہ پر ہو رہا ہے اور حکومت اس طبقہ کو بچانے کیلئے عام آدمی پر بوجھ عائد کرنے ہر وقت تیار نظر آتی ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یہ واضح ہوجائیگا کہ ملک کے متوسط اور غریب طبقہ کو ملک کی ترقی کے ثمرات میں اس کا کوئی حصہ نہیں مل سکا ہے ۔ عوام کی اکثریت آج بھی ان ہی مسائل سے دوچار ہے جو دو دہے قبل اصلاحات کا عمل شروع ہونے سے قبل تھی ۔ عوام کیلئے آج بھی دو وقت کی روٹی ہی اصل مسئلہ ہے ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے سابقہ حکومتوں کی جانب سے نہ کچھ کیا گیا ہے اور نہ موجودہ حکومت سے فی الحال ایسی کوئی امید نظر آتی ہے کہ وہ عوام کو راحت پہونچانے میں سنجیدہ ہے ۔ یہ صورتحال ملک کے غریب اور متوسط طبقہ کیلئے افسوسناک کہی جاسکتی ہے حالانکہ اسی طبقہ کو حکومت سے بہت امیدیں تھیں۔ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کا جو نعرہ ہے وہ پرکشش توضرور دکھائی دیتا ہے اور شائد یہی کشش ہے کہ کچھ کارپوریٹ اور سرمایہ دار گھرانے حکومت کے فیصلوں کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تائید کے پیچھے ان کے اپنے مفادات کارفرما ہیں لیکن ملک کا عام آدمی جس بوجھ سے دبتا جا رہا ہے اس کی کسی کو فکر نہیں ہے ۔ کارپوریٹ گھرانے تو اس جانب توجہ ہی نہیں دینا چاہتے لیکن عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت بھی ان کی فکر کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اسے بھی صرف یہی فکر ہے کہ جن کارپوریٹ گھرانوں نے اسے انتخابی مہم کے دوران بڑھ چڑھ کر عطیات فراہم کئے تھے ان گھرانوں کے مفادات کا سب سے پہلے تحفظ کیا جائے تاکہ آئندہ بھی وقت ضرورت ان سے مدد حاصل کی جاسکے ۔ یہ انتہائی افسوسناک طرز عمل ہے ۔ پرکشش بہانوں کے ذریعہ عوام پر اسی طرح اگر بوجھ عائد کیا جاتا رہا اور کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا رہا تو پھر مودی حکومت کو بھی عوام کی برہمی کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ حالانکہ اس حکومت کے قیام کو ایک مہینے کا وقت ہی ہوا ہے لیکن اس نے عوام کو جھٹکے دینے شروع کردئے ہیں ۔ ان جھٹکوں کا سلسلہ جاری رہا تو حکومت بھی اس کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکتی ۔