ملک میں انتخابات کی سرگرمیاں پوری شدت کے ساتھ چل رہی ہیں۔ رائے دہندوں کو رجھانے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے سیاسی جماعتیں اورا میدوار سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں۔ ہر ہتھکنڈہ اختیار کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کہیں امیدوار اپنی طاقت کا استعمال کر رہے ہیں تو کہیں پیسے کی طاقت استعمال کی جا رہی ہے ۔ کہیں رائے دہندوں میں تحائف بانٹے جا رہے ہیں تو کہیں شراب تقسیم کی جا رہی ہے ۔ کہیں بلندبانگ دعوے کئے جار ہے ہیں تو کہیں نت نئے وعدے کئے جا رہے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر جماعت اور ہر امیدوار انتخابی کامیابی کیلئے کوشاں ہے ۔ ایسے میں اقتدار کی دعویدار جماعتیں بہت زیادہ سرگرم دکھائی دیتی ہیں جن میں بی جے پی اپنی تشہیری مہم کے ذریعہ یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اقتدار کے حصول کی دوڑ میں وہ سب سے آگے ہے اور وزارت عظمی کیلئے اس کے امیدوار نریندر مودی کی سارے ملک میں لہر چل رہی ہے ۔
اب بی جے پی کے سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی نے کہا ہے کہ ملک میں مودی کی کوئی لہر نہیں ہے بلکہ یہ در اصل بی جے پی کی لہر ہے جو ملک میں چل رہی ہے اور چونکہ مودی پارٹی کے نمائندے ہیں اس لئے انہیں کچھ اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔ خود بی جے پی میں اس طرح کی بات در اصل اندرونی اختلافات کو ظاہر کرتی ہے ۔ مودی اور ان کے حواری مسلسل مودی لہر کے دعوے کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں نہ مودی کی لہر ہے اور نہ بی جے پی کی لہر ہے ۔ یہ در اصل میڈیا کی لہر ہے جو چلائی جا رہی ہے اور میڈیا انتخابات میں فیصلہ کن رول ادا کرنے کی کوششوں میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے اورمودی کے حق میں رائے عامہ کو موڑنے میں مصروف ہوگیا ہے ۔ یہ نے میڈیا کی ذمہ داری ہے اور نہ یہ اس کا تقاضہ ہے ۔ میڈیا کا کام تو محض حقائق کو پیش کرنا ہے اور کسی کا فریق بننے سے گریز کرنا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارا میڈیا انتخابی عمل کا حصہ بن کر ایک فریق کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے اور ایسے میں وہ اپنے اصل فریضہ سے کہیں پیچھے ہٹ گیا ہے ۔ یہ میڈیا کی پیدا کردہ صورتحال ہے جس میں عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں۔
انتخابات میں روایت یہ رہی ہے اور جمہوری عمل کا تقاضہ یہ ہے کہ عوام کے سامنے انہیں اور ملک کو درپیش مسائل پیش کئے جائیں۔ ان مسائل پر مباحث کئے جائیں۔ انہیں حل کرنے کی راہیں تلاش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ سیاسی جماعتوں کے عزائم اور ان کے منصوبوں کو پیش کیا جائے ۔ سابقہ حکومت کے کارنامے دکھائے جائیں۔ تازہ تائید حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کے منشور کو پیش کیا جائے اور پھر عوام کو سوچنے کیلئے وقت دیتے ہوئے ان کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تاہم 2014 میں ہونے والے عام انتخابات اس سے کافی دور نظر آتے ہیں۔ یہاں نہ کوئی مسائل ہیں نہ ایجنڈہ ہے ۔ نہ کوئی پروگرام ہے اور نہ کوئی منشور ہے ۔ نہ کوئی کارنامے ہیں اور نہ کوئی عزائم ہیں۔ یہاں صرف شخصیت پرستی کو فروغ دیتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس میں میڈیا اپنا کردار فراموش کرتے ہوئے ایک فریق بنتا جا رہا ہے ۔ یہ نہ جمہوری عمل کیلئے بہتر ہے اور نہ خود میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے حق میں اس کو درست کہا جاسکتا ہے ۔ یہاں مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا اور صرف سیاسی ہتھکنڈوں کی بنیاد پر انتخابات کا میدان گرمایا جارہا ہے ۔ کسی کے خیال اور ذہن میں یہ بات نہیں ہے کہ ایک مرتبہ کی انتخابات کی کامیابی سے زیادہ ملک میں جمہوریت کی اہمیت کو برقرار رکھنا ہے ۔ اقتدار حاصل کرنا سب کی خواہش ہوتی ہے لیکن اس کیلئے اصولوں اور اقدار کو ختم کرنا یا جس جمہوری عمل سے اقتدار حاصل ہوتا ہے اس کی ہی اہمیت کو ختم کرنا انتہائی افسوسناک عمل کہا جاسکتا ہے ۔
ان حالات میں ملک کے رائے دہندوں کو پوری سنجیدگی اور شعور کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ انہیں کسی ایک شخصیت سے متاثر ہونے کی بجائے ترقیاتی منصوبوں اور پروگراموں کو اہمیت دینا چاہئے ۔ ملک کی کامیابی اور بہتری کیلئے ایک منشور کو ترجیح دینا چاہئے نہ کہ سماج میں تفرقہ پھیلانے والوں ‘ قتل و غارت گری کرنے والوں کو تمغے فراہم کرنے والوں ‘ نفرت کا بیج بونے والوں اور فرقہ پرستی کو عروج بخشنے والوں کے جال میں پھنسنے سے گریز کرتے ہوئے حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئے تبھی ملک کے مستقبل کو بہتر اور تابناک بنایا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک میڈیا کا سوال ہے اس کا رول اور بھی اہمیت کا حامل ہے اور میڈیا کو اپنی اہمیت اور ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ مفادات کی تکمیل کیلئے فریق بننا خود میڈیا کیلئے بہتر نہیں ہوگا اور صحافتی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے میڈیا اپنے امیج کو بہتر بناسکتا ہے اور اس کی اہمیت بحال ہوسکتی ہے