تیرے غرور کا حُلیہ بگاڑ ڈالوں گا
میں آج تیرا گریبان پھاڑ ڈالوں گا
مودی حکومت پر تنقیدیں
مودی حکومت میں نئے قسم کے تنازعات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ یہ تنازعے بی جے پی کے ہی موجودہ اور سابق قائدین پیدا کریں گے اس وقت مودی حکومت پر جو لعن طعن ہورہی ہے۔ اس میں سابق مرکزی وزیر ارون شوری کی وزیراعظم مودی پر راست تنقید کو خصوص کر نوٹ کیا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے واضح طور پر کہاکہ مودی حکومت معاشی اُمور کو نمٹنے میں ناکام ہوتی ہے اور اس سمت میں وہ بے سمتی کا شکار نظر آتی ہے۔ حکومت میں آنے کے چند دن تک عوام کو پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا جھانسہ دیا گیا اب اچانک پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ بھی کیا گیا۔ مودی حکومت کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ارون شوری نے اس حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جو کچا چٹھا نکالا ہے اس کو مودی حکومت کی صحت کے لئے بہتر نہیں سمجھا جائے گا۔ ملک کی معیشت کی بہتری کا کوئی نمایاں یا حقیقت سا اشارہ نہیں ملتا بلکہ حکومت اپنی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے سے زیادہ خود کو سرخیوں میں رکھنے پر توجہ دے رہی ہے۔ اُنھوں نے مودی حکومت کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا کہ معاشی پیداوار میں 8 فیصد کے نشانہ کو پورا کرلیا گیا ہے۔ جب حکومت سرمایہ کاروں سے رجوع ہونے میں ایک مستحکم منصوبہ کو تیار کرنے میں ناکام ہے تو وہ عوام کو آنے والے دنوں میں خوشحالی کی خوشخبری کس طرح دے سکے گی۔ معاشی معاملوں پر وہ بلند بانگ دعویٰ کررہی ہے لیکن بنیادی طور پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ مودی حکومت کے تیری مورتی ملک کو چلارہے ہیں ان تیری مورتیوں یعنی نریندر مودی، ارون جیٹلی اور بی جے پی صدر امیت شاہ مل کر حکومت میں ایسی کی تیسی کردے رہے ہیں۔ تو پارٹی کے دیگر ہونہار قائدین درست مشورے اور تجاویز دینے سے گریز کررہے ہیں۔ مودی نے اپنی ایک رکنی حکومت چلاکر دن کو رات اور رات کو دن کہنے کے لئے مجبور کرتے ہیں تو پارٹی کا کوئی بھی لیڈر ان کے سامنے لب کشائی سے خوف کھائے گا۔ مگر مودی کو ایک سال کے اندر ہی اپنے ہی صف کے لوگوں سے تنقیدوں کا شکار ہونا پڑرہا ہے تو اپوزیشن کو آخر حکومت کی کارکردگی کے خلاف بیدار ہونے کی کس گھڑی کا انتظار باقی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک میں اپوزیشن کا وجود بھی نہیں کے برابر ہے اسی لئے مودی حکومت کی خرابیوں کو ازخود بی جے پی کی صفوں میں سے ہی کسی نے نوٹ کیا ہے۔ اس سچ کی روشنی میں مودی حکومت کا جھوٹ بہت جلد مرجائے گا۔ جو سیاستداں سچ کی زندگی جینا نہیں چاہتا اس کو صرف ابہام، تشویش، سازشی کہانیوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے منصوبوں سے ہی دلچسپی ہوتی ہے تو وہ اپنے جھوٹ کو زندہ رکھنے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے۔ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر ایک وزیراعظم کی خاموشی اور ہندوتوا طاقتوں کو کھلی چھوٹدینے کے نتائج ملک کی اقتصادی صورتحال اور امن کے لئے تشویشناک ہے۔ مودی کے اقتدار پر آنے کے بعد تبصرے کرنے والوں نے کہا تھا کہ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہونے کے بعد اپنی خوش قسمتی اور ہندوستان کی بدقسمتی سے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا ہے اب ان کی ہی نگرانی میں گھر واپسی، لو جہاد اور دیگر اقلیتی عبادت گاہوں پر حملوں کو تیز کردیا جارہا ہے تو اس سے اقلیتوں میں بے چینی پیدا ہونا یقینی ہے۔ تو پھر مودی حکومت کو ہر لحاظ سے کامیاب کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے۔ ارون شوری نے اقلیتوں کے معاملہ میں مودی حکومت کی خاموشی پر بھی سوال اُٹھایا ہے۔ جب معاشرہ میں ایک طبقہ خود کو غیر محفوظ متصور کرنے لگے اور ان میں اضطرابی کیفیت پائی جائے تو ایک اچھی حکمرانی کا دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوتا ہے۔ آج جو کچھ ہورہا ہے اس میں بدعنوانیوں کا ذکر نہیں ہے۔ مودی حکومت کی بدعنوانیوں پر بھی کارپوریٹ گھرانے اور مودی حامی میڈیا خاموش ہے۔ ایک دن بڑے سے بڑے اسکامس کا انکشاف ہوجائے گا تو عوام کو پتہ چلے گا کہ ہندوستان کی اقتصادی صورتحال کو کس حد تک تباہ کردیا گیا ہے۔ ارون شوری نے مودی حکومت کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو دور نہ کرنے پر تنقید کی ہے۔ ہندوستان کے پڑوسی ملکوں میں پاکستان کے ساتھ ہر حکومت کے تعلقات دوستانہ رہے ہیں۔ لیکن مودی نے اب تک ایسی کوئی پالیسی وضع نہیں کی کہ پاکستان کے ساتھ معطل شدہ مذاکرات کے احیاء کے لئے کوئی راہ نکل سکے۔ خارجی سطح پر ان کے دورے بھی اپنے ہی ملک کی برائی کرنے کی حد تک محدود رہے ہیں۔ اُنھوں نے حال ہی میں فرانس، جرمنی اور کیناڈا کا سہ قومی دورہ کیا تھا جس میں اُنھوں نے ہندوستان کی 60 سالہ سیاسی زندگی کو خراب خیال کے ساتھ پیش کرکے دیگر اقوام کے سامنے اپنے ملک کی تذلیل کردی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ غیروں کے سامنے اپنوں کی برائی نہ کی جائے مگر مودی نے 60 سالہ گندگی کو دور کرنے کا تبصرہ کرکے اپنے ہی ملک کی صورتحال کو برہنہ کرکے دوسروں کی نظروں میں خود بھی شاکی بن گئے۔
سعودی عرب میں نوجوان قیادت
سعودی عرب میں بزرگوں کی زیرقیادت حکمرانی کو اب نئی نسل کے سپرد کرنے کی تیاریوں کے حصہ کے طور پر شاہ سلمان نے کابینہ میں بڑے پیمانہ پر ردوبدل کرکے یہ ظاہر کردیا ہے کہ عالم عرب، مشرق وسطیٰ اور مغرب کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو سیاسی و فوجی طاقت کے مطابق استوار کرنے کی ترکیب سازی کرلی گئی ہے۔ سعودی عرب میں فرمان و فیصلہ سازی کا اختیار شاہ کے تفویض ہوا کرتا ہے۔ برسوں سے یہ عمل بصد احترام جاری ہے۔ اب سعودی حکومت کی صفوں میں نوجوان ارکان کو بااختیار بنایا جارہا ہے تو ایک غیر معمولی تبدیلی ہے۔ یمن، عراق، شام اور دیگر عرب ملکوں کے بدلتے حالات میں اگر شاہ سلمان نے دور اندیشی سے کام لیا ہے تو ان کی خارجہ پالیسی میں بھی حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھی جارہی ہیں۔ شاہ سلمان نے اپنے سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد جنوری میں عنان اقتدار سنبھالا تھا۔ کابینہ میں ردوبدل کے دوران اُنھوں نے روایت سے ہٹ کر سوتیلے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کی جگہ وزیرداخلہ محمد بن نائف کو ولیعہد مقرر کیا۔ نائف کو حکومت سعودی عرب کی صف میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ شاہ سلمان کے فرزند 30 سالہ محمد بن سلمان نائب ولی عہد نامزد ہوئے ہیں۔ ان دونوں شہزادوں کو اہم ذمہ داریاں دینے سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اب سعودی عرب کی قیادت نئی نسل کے ہاتھوں سونپی جائے گی۔ یمن کی صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب کی بادشاہت میں سیاسی نوعیت کی فکر و عمل کو امن، ترقی، خوشحالی کے لئے ضروری سمجھا جارہا ہے تو نوجوان ولی عہد اور نائب ولی عہد کو اپنے پیشرو حکمرانوں کی پالیسیوں اور طرز حکمرانی کا احترام کرتے ہوئے نئی و جدت پسندانہ رجحان پر ثابت قدمی سے گامزن ہونا چاہئے۔ شاہ عبداللہ نے جس طرح کی اصلاح پسند حکمرانی کی بنیاد ڈالی تھی اس کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ روایتی سعودی پالیسی کو بھی برقرار رکھنا وقت کا تقاضہ سمجھا جائے گا۔