واشنگٹن 30 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کو پُر تشدد حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں تبدیلی مذہب پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ آر ایس ایس جیسی تنظیموں کی جانب سے ’’گھر واپسی‘‘ مہم چلائی جارہی ہے جب سے نریندر مودی حکومت برسر اقتدار آئی ہے ہندوستان کی صورتحال ابتر ہوگئی ہے۔ اپنی 2015 کیلئے عام رپورٹ میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی آزادی مذہب نے اوباما نظم و نسق سے خواہش کی ہے کہ حکومت ہند پر دباو ڈالے اور اُس کی برسر عام سرزنش کریں کیونکہ ہندوستان کے مذہبی قائدین تکبر آمیز تبصرے اقلیتوں کے بارے میں کررہے ہیں ۔ہندوستان میں مذہبی آزادی کے معیاروں کو بلند کرنے کی خواہش کی جائے ۔ کمیٹی نے کہا کہ ملک کے تکثیری‘سیکولر جمہوریہ موقف کے باوجود ہندوستان طویل مدت سے مذہبی اقلیتوں کے تحفظ یا انہیں انصاف فراہم کرنے کیلئے جدوجہد کررہا ہے لیکن بار بار اُن کے خلاف جرائم کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کمیٹی نے اہم انکشافات میں میں کہا کہ آندھرا پردیش ‘اتر پردیش ‘ بہار ‘چھتیس گڑھ ‘گجرات ‘اڈیشہ ‘کرناٹک ‘مدھیہ پردیش ‘مہاراشٹرا اور راجستھان میں کثیر تعداد میں مذہبی اقلیتوں کو پر تشدد حملوں اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ این جی اوز اور مذہبی قائدین بشمول مسلم ‘عیسائی اور سکھ طبقات کے قائدین کو مذہبی تقسیم کی مہم چلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے 2014 کے عام انتخابات کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ انتخابات کے وقت سے ہی مذہبی اقلیتی طبقات کو تکبر آمیز تبصروں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آر ایس ایس جیسی تنظیمیں اور برسر اقتدار بی جے پی متعدد پرتشدد حملوں میںملوث ہیں۔
مذہبی اقلیتیں ہندو قوم پرست گروپس جیسے آر ایس ایس اور وی ایچ پی کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ یو ایس سی آئی آر ایف کی ڈسمبر 2014 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندو گروپس نے جبری تبدیلی مذہب کروانے کے اپنے منصوبوں کا اعلان کردیا ہے ۔ اُن کے بموجب 4 ہزار عیسائی خاندانوں اور ایک ہزار مسلم خاندانوں کو یو پی میں اور عیسائیوں کو خودساختہ ’’گھر واپسی‘‘ پروگرام کے تحت ہندو دھرم قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ پروگرام سے پہلے ہی ہندو گروپس نے اپنی مہم کیلئے رقم جمع کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ انہوں نے تخمینہ پیش کیا ہے کہ ایک عیسائی کی تبدیلی مذہب کیلئے 2 لاکھ اور مسلم کی تبدیلی مذہب کیلئے 5 لاکھ روپئے کی رقم خرچ ہوگی۔ موہن بھاگوت کے بموجب جو آر ایس ایس کے سر سنچالک ہیں اس مہم کو رقم کی کمی کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا ہے ۔ امریکی کمیٹی نے کہا کہ ہندو گروپس مبینہ طور پر عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندو دھرم قبول کرنے کیلئے رقمی ترغیبات بھی پیش کررہے ہیں۔ ڈسمبر کے اوائل میں مبینہ طور پر سینکڑوں مسلمانوں کو زبردستی دوبارہ ہندو دھرم قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے ۔ آر ایس ایس کے ارکان نے مبینہ طور پر کئی مسلم خاندانوں کو اپنے اجلاسوں میں شرکت کرنے پر مجبور کیا اور اُن سے کہا کہ اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مالی مدد دی جائے گی لیکن اس کے بجائے ہندو مذہبی قائدین نے انہیں دوبارہ ہندو دھرم قبول کرنے پر مجبور کیا ۔ کمیٹی نے ستمبر 2016 میں کہا کہ دلت تحفظات کے بارے میں یو پی سے موصولہ رپورٹ کے بموجب اُن تمام کو زبردستی ہندو دھرم قبول کرنے اور چرچ جانے کے بجائے مندر جانے پر مجبور کیا گیا ۔
یہ معلوم نہیںہوسکا کہ اس معاملے کی پولیس تحقیقات کروائی گئی ہیں یا نہیں ۔کثیر تعداد میں دلت ہندو دھرم سے دور ہوچکے تھے جنہیں دوبارہ ہندو دھرم کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ رپورٹ کے بموجب ہندوستانی کیتھولک سنتوں کو فبروری میں وزیر اعظم نریندر مودی نے برسر عام کہا تھا کہ اُن کی حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ عقیدے کی آزادی ہر شخص کو حاصل رہے کیونکہ یہ ایسا حق ہے جس سے انہیں محروم نہیںکیا جاسکتا ۔انہیں اپنی پسند کا مقصد اختیار کرنے کی آزادی ہوگی۔ یہ بیان خاص طور پر اس لئے قابل غور ہے کہ 2002 میں جب نریندر مودی چیف منسٹر گجرات تھے تو مبینہ طور پر مسلم دشمن فسادات میں ملوث تھے۔ مذہبی اقلیتیں اندیشے ظاہر کررہی ہے کہ بی جے پی کے اعلی سطحی قائدین کے مقابلے میں وہ غیر محفوظ ہے اس لئے انہیں تحفظ کی ضرورت ہے ۔ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی عدالتیں اب بھی ہندو ۔ مسلم فرقہ وارانہ تشدد کے مقدمات کی سماعت میں مصروف ہیں ۔ اتر پردیش میں 2013 میں اور گجرات میں 2002 میں فسادات ہوچکے ہیں۔ اڈیشہ میں عیسائیوں پر 2007-08 میں عیسائی مخالف فساد ہوا تھا اور دہلی میں 1984 میں سکھ دشمن فسادات ہوچکے ہیں۔ این جی اوز ‘مذہبی قائدین اور انسانی حقوق کارکن الزام عائد کرتے ہیں کہ مذہبی تعصب اور کرپشن کے واقعات کی تحقیقات غیر جانبدارانہ طور پر نہیں کی جاتیں۔