یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
مودی بھی خاموشی کی راہ پر؟
سابق یو پی اے دور حکومت میں اکثر و بیشتر اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ وہ کئی اہم اورسلگتے ہوئے مسائل پر بھی خاموش رہنے کوترجیح دیتے ہیں اور اہم مسائل پر بیان دینے کا اظہار خیال کرنے کی انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر بی جے پی کی جانب سے انہیں مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو کسی بھی مسئلہ پر لب کشائی سے پہلے شائد یو پی اے صدر نشین سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ کئی ایسے موقع آئے تھے جب واقعی یہ محسوس کیا جارہا تھا کہ ڈاکٹر سنگھ کو اظہار خیال کرنا چاہئے لیکن انہوں نے ان اہم موقعوں پر بھی خاموشی اختیار کی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنی دو معیادوں میں دو یا تین ہی موقعوں پر کسی باقاعدہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ ان موقعوں پر بھی انہیں کئی اہم امور پر اپنے موقف کی وضاحت کرنے میں ہی زیادہ وقت صرف کرنا پڑا تھا۔ یہ ان کی حکمت عملی تھی یا مجبوری تھی لیکن دس سال کے دوران وزیراعظم نے بہت کم موقعوں پر زبان کھولی تھی اور اسکو بی جے پی کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایسے میں جب ملک میں انتخابات ہوئے اور نئی حکومت قائم ہوئی تو یہ امید کی جارہی تھی کہ نئے وزیر اعظم اکثر و بیشتر موقعوں پر زبان کھولنے میں کسی قسم کی رکاوٹ محسوس نہیں کرینگے کیونکہ انتخابات سے قبل ان کی جادو بیانی ہی تھی جس کے نتیجہ میں بی جے پی اور این ڈی اے کو اقتدار حاصل ہوا تھا۔ مودی نے ملک کے طول و عرض میں کئی دورے کئے اور بے شمار ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے تقریبا ہر مسئلہ پر اظہار خیال کیا تھا چاہے وہ مسئلہ ہندوستان کے داخلی حالات کا ہو یا خارجہ پالیسی کا ہو۔ ان سے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی اسی طرح کی امید کی جا رہی تھی کہ وہ شائد خاموشی کو ترک کرینگے اور ضروری موقعوں پر اظہار خیال کرینگے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی بھی فی الحال اپنے پیشرو ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اسی روایت پر عمل کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور کئی اہم اور ضروری مسائل پر بھی انہوں نے لب کشائی سے گریز کیا ہوا ہے۔ صرف ان کے اطراف کے حاشیہ بردار حکومت کے موقف کی وضاحت میں مصروف ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں ایسے کچھ واقعات ہوئے ہیں اور بیانات آئے ہیں جن پر وزیر اعظم کو اظہار خیال کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ گذشتہ دنوں سے شیوسینا ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے مہاراشٹرا سدن میں مسلمان روزہ دار کے منہ میں زبردستی روٹی ٹھونسنے کے واقعہ پر ہنگامہ چل رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی گڑبڑ ہوئی۔ وزیر داخلہ نے بیان دیا لیکن وزیر اعظم نے اس واقعہ کے تعلق سے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔ گوا کے ایک وزیر نے متنازعہ بیان دیتے ہوئے واضح کیا کہ نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان ایک ہندو راشٹر بن جائیگا۔ بعد میں انہوں نے اسے ترقی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ مودی نے اس پر بھی کوئی وضاحت کرنے سے گریز کیا حالانکہ بی جے پی کی جانب سے یہ وضاحت ضرور کی گئی کہ بی جے پی دستور کے مطابق تمام مذاہب کو مساوی موقف دینے کے عہد کی پابند ہے۔ اس کے بعد گوا کے ہی ڈپٹی چیف منسٹر نے بھی ہندو راشٹرا کی تائید کی اور کہا کہ وہ ملک کے ہند کرسچین ہیں۔ اس سے قبل مودی حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی ان ہی کے دفتر کے وزیر نے جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دینے والے دستور ہند کے دفعہ 370 کو حذف کرنے کے تعلق سے ریمارک کیا تھا۔ مہارشٹرا کے شہر پونے میں ایک مسلمان آئی ٹی ماہر کو فیس بک تنازعہ کی وجہ سے قتل کردیا گیا حالانکہ بعد میں واضح ہوگیا تھا کہ اس واقعہ سے متوفی کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ یہ تمام واقعات نریندر مودی کیلئے ایسی صورتحال پیدا کرتے ہیں جس پر انہیں خود سے اظہار خیال کرنے کی ضرورت ہے لیکن اب تک انہوں نے خاموشی کو برقرار رکھا ہے اورکسی بھی مسئلہ پر ملک و قوم کو یہ تیقن دینے کی کوشش نہیں کی ہے کہ ان کی حکومت دستور ہند کے مطابق کام کرنے کی پابند ہے۔ انتخابات سے قبل زبان کا جادو چلانے والے مودی ایسا لگتا ہے کہ وزارت عظمی کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد الفاظ سے محروم ہوگئے ہیں یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح بی جے پی نے ڈاکٹر منموہن سنگھ پر الزام عائد کیا تھا شائد وہی صورتحال نریندر مودی کے ساتھ ہو اور انہیں بھی کسی بھی مسئلہ پر لب کشائی یا بیان بازی کیلئے پہلے ناگپور سے منظوری حاصل کرنی پڑتی ہو۔ناگپور سے منظوری ملنی آسان نہیں ہوتی اور نریندر مودی وہاں سے چلنے والے ریموٹ کنٹرول کے تابع دکھائی دیتے ہیں۔ مودی کو چاہئے کہ وہ انتہائی حساس اور اہمیت کے حامل مسائل پر ملک و قوم کو واضح انداز میں تیقن دیں اور لب کشائی سے گریز نہ کریں۔