منموہن سنگھ کی پریس کانفرنس

مری زندگی ہے نصاب سی
کہ کھلی ہوئی ہے کتاب سی
منموہن سنگھ کی پریس کانفرنس
و زیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بحیثیت وزیر اعظم عملًا اپنی آخری پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر سنگھ نے اس پریس کانفرنس میں کئی امور کا احاطہ کیا اور سب سے اہم بات جو انہوں نے کہی وہ یہ کہ بی جے پی لیڈر نریندر مودی بحیثیت وزیر اعظم ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہونگے ۔ انہوں نے خود کو کمزور قرار دئے جانے پر جس رد عمل کا اظہار کیا ہے وہ بھی معنی خیز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ احمد آباد کی گلیوں اور سڑکوں پر بے قصور افراد کے قتل عام کو یقینی بنانا اگر طاقت کہا جاتا ہے تو ملک کو ایسی کسی طاقت کی ضرورت نہیں ہے ۔ نریندر مودی پر ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اس طرح کی تنقید اب تک پہلی مرتبہ کھل کر کی گئی تنقید ہے اور انہوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے بعد وہ وزارت عظمی کیلئے تیسری معیاد کے دعویدار نہیںہونگے ۔ انہوں نے کسی آئندہ وزیر اعظم کو ملک کی عنان اقتدار سونپ دینے کا اعلان کیا ہے اور اس امید کا اظہار کیا کہ یہ وزیر اعظم یو پی اے کا ہی ہوگا ۔ انہوں نے اپنی کارکردگی کے تعلق سے کسی طرح کے ادعا کرنے کی بجائے یہ معاملہ تاریخ پر چھوڑ دیا ہے اور کہا کہ تاریخ ان کے تعلق سے کوئی فیصلہ کریگی ۔ دیگر امور سے قطع نظر نریندر مودی کے تعلق سے ریمارکس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ سرکاری سطح پر بھی اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ نریندر مودی نے کس طرح سے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور کس طرح سے احمدآباد کی گلیوں اور سڑکوں پر انسانیت کو رسوا کیا گیا اور بے قصور مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ منموہن سنگھ کے ان ریمارکس پر بی جے پی چراغ پا ہوگئی ہے اور اس نے اب سوال کیا ہے کہ کیا منموہن سنگھ اسی طرح کی زبان 1984 کے مخالف سکھ فسادات کیلئے بھی استعمال کرینگے جو اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دور حکومت میںپیش آئے تھے ۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس تعلق سے بھی وضاحت کردی کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے ان فسادات پر سکھ برادری سے معذرت خواہی کرلی ہے اس کے علاوہ سکھ متاثرین کیلئے حکومت کی جانب سے بہت کچھ کیا جاچکا ہے ۔ اس طرح بالواسطہ طور پر یہ واضح ہوگیا کہ گجرات کے مسلم متاثرین کیلئے حکومت نے اتنا کچھ نہیں کیا ہے جتنا سکھ متاثرین کیلئے کیا گیا ۔ ملک کے وزیر اعظم کی جانب سے یہ اعتراف انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس سے ساری دنیا پر واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کے ساتھ اب تک بھی انصاف نہیں ہوا ہے ۔
اب جبکہ ملک میں لوک سبھا انتخابات کیلئے بہت کم وقت رہ گیا ہے اور عملی اس کی تیاریاں بھی ہر جماعت کی جانب سے شروع ہوچکی ہیںایسے میں بی جے پی کے وزارت عظمی امیدوار کی حقیقی تصویر کو پیش کئے جانے پر پارٹی چراغ پا ہوگئی ہے ۔ وہ منموہن سنگھ کی معیاد پر تنقیدیں کر رہی ہے اور اسے ایک ضائع شدہ موقع قرار دے رہی ہے ۔ پارٹی کے صدر مسٹر راج ناتھ سنگھ کاادعا ہے کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم اور عدالتوں کی جانب سے مودی کو کلین چٹ دئے جانے کے باوجود وزیر اعظم کی جانب سے اس طرح کے ریمارکس مناسب نہیں ہیں۔ مودی کو یقینی طور پر کلین چٹ ایس آئی ٹی کی جانب سے مل گئی ہے لیکن راج ناتھ سنگھ یا بی جے پی کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ گجرات میں جو انسانیت کا قتل عام کیا گیا اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ۔ ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کا ‘ کروڑہا روپئے کی ان کی جائیداد و املاک کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے ۔ مسلم خواتین کی عصمتوں کو تار تار کرنے کا ذمہ دار کون ہے ۔ سر عام حاملہ خواتین کا پیٹ چاک کرکے بچوں کو ضائع کرنے کا ذمہ دار کون ہے ؟ ۔ جو واقعات پیش آئے ہیں ان سے انکار کرنے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے لیکن ان سب واقعات کی ذمہ داری بھی تو کسی نہ کسی پر عائد ہونی چاہئے۔ بحیثیت چیف منسٹر نریندر مودی اگر ان سب واقعات کے ذمہ دار نہیںہیں تو پھر اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جانی چاہئے ؟ ۔ کیا مسلمانوں کا خون ایسے ہی ضائع ہوجائیگا ؟ ۔ کوئی ان کے قتل عام کیلئے ذمہ داری قبول نہیں کریگا ؟ ۔ کیا ایس آئی ٹی کا انہیں کلین چٹ دیدینا کافی ہے ؟ ۔ ایس آئی ٹی نے جو کلین چٹ دی ہے وہ بھی صرف گلمرگ قتل عام واقعہ کے تعلق سے ہے جس میں سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری اور دوسرے درجنوں افراد کو زندہ جلادیا گیا تھا ۔ سارے گجرات فسادات کی ذمہ داری تو یقینی طور پر بحیثیت چیف منسٹر نریندر مودی پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ کیا بی جے پی ‘ یا اس کے صدر راج ناتھ سنگھ یا دوسرے قائدین اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں ؟ ۔

منموہن سنگھ کی پریس کانفرنس کے دیگر موضوعات بھی حالانکہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان پر بھی اظہار خیال یا مباحث ہوسکتے ہیں لیکن سب سے اہم بات یہی ہے کہ سرکاری اور ملک کے اعلی ترین عہدہ کی حامل شخصیت کی جانب سے مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ داری اب نریندر مودی پر عائد کردی گئی ہے اور اس سے بچنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ بی جے پی اور اس کے قائدین کو کم از کم اب تو اس حقیقت کو قبول کرلینا چاہئے کہ نریندر مودی کی قیادت میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کردیا گیا اور انہیں کسی قصور کے بغیر موت کی آغوش میں ڈھکیل دیا گیا ۔ سیاسی اعتبار سے مودی کے اطراف بی جے پی گردش کر رہی ہے یہ اس کے مفادات ہوسکتے ہیں لیکن انصاف کے تقاضوں سے صرف نظر کرنا بھی آسان نہیں ہوگا ۔ گجرات کے مسلمان آج تک انصاف کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آج تک فساد متاثرین کی نہ باز آبادکاری کی گئی اور نہ قتل عام کرنے والے قاتلوں کو کسی طرح کی سزائیں دلائی گئی ہیں۔ حکومت گجرات خاطیوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی بجائے انہیںبچانے اور سرکاری تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہے ۔ نریندر مودی ہوں کہ ارون جیٹلی ہوں ‘ راج ناتھ سنگھ ہوں یا دیگر قائدین ان سب کو یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ فسادات پر صرف اظہار افسوس کرنا کافی نہیں ہوسکتا ۔
پٹرول کی قیمت میں پھر اضافہ
سرکاری تیل کمپنیوں نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں پھر اضافہ کردیا ہے ۔ حسب معمول بین الاقوامی مارکٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور روپئے کی قدر میں گراوٹ کو اس کی وجہ قرار دیا گیا ہے اور یہ بوجھ راست عوام پر منتقل کردیا گیا ہے ۔ دو دن قبل ہی بغیر سبسڈی والے گیس سلینڈرس کی قیمت میں بھی 220 روپئے کا بھاری اضافہ کردیا گیا تھا ۔ یہ اضافہ پہلے ہی سے مہنگائی اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی مار سہنے والے عوام پر ایک اضافی بوجھ ہے اور ان کی زندگیاں مزید مشکلات کاشکار ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومت عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے سرکاری تیل کمپنیوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے عوام پر مسلسل بوجھ عائد کرنے کیلئے مکمل اختیارات سونپتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کی ہے ۔ حکومت کا یہ ر و یہ کسی بھی حال میں درست قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

گذشتہ ایک سال میں کئی مرتبہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں ۔ ادویات اور دودھ جیسی بنیادی اشیا بھی مہنگی ہوتی گئی ہیں اور عام آدمی کے ذرائع آمدنی میں کمی آئی ہے ۔ حکومت کو عوام پر مسلسل بوجھ عائد کرنے کی بجائے حالات پر قابو پانے کیلئے ایسے کچھ اقدامات کرنے چاہئیں جن کی وجہ سے تیل کمپنیوں کے خسارہ پر قابو پانے میں مدد ملے اور عوام کو بھی اس بوجھ سے نجات مل سکے جو اس پر مسلسل عائد کیا جارہا ہے ۔ حکومت عوام اور صارفین کو تیل کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ اب تک اس کا جو طرز عمل رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک رہا ہے ۔ اسے عوام کو حالات کی مار سہنے کیلئے تنہا چھوڑدینے کی بجائے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے ورنہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اب عوام کو بھی اختیار ملنے والا ہے اور وہ اپنے اختیار کا استعمال کرینگے تو اس کے نتائج حکومت کو بھگتنے پڑیں گے جو یقینی طور پر اس کیلئے خوشگوار نہیں ہوسکتے ۔