منصوبہ بندی کمیشن

ہوگی مخالفت نہ اگر ظلم کی کبھی
مجبور کس طرح سے جئے گا جہان میں
منصوبہ بندی کمیشن
مرکز میں جس وقت سے نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے اس وقت سے یہ حکومت ایسے اقدامات اور فیصلے کر رہی ہے جس پر شدید اعتراضات ہو رہے ہیں۔ حکومت ایک مخصوص ذہن و فکر کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔ سب سے پہلے تو تعلیم کے شعبہ کو فرقہ پرستی کا رنگ دینے کی کوششیں شروع ہوئی ہیں۔ طلبا تنظیموں اوردیگر اداروں کی جانب سے تعلیم کے شعبہ کو زعفرانی رنگ دینے کی کوششوں کی مذمت کی گئی ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس طرح کی تنقیدوں کو خاطر میںلانے کو تیار نہیں ہے اور وہ اپنے منصوبوں کو عملی شکل دینے پر تلی ہوئی ہے ۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت متعصب ذہنیت اور منتقم مزاجی کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔ تعلیم کے شعبہ کے علاوہ دیگر ایسے امور بھی ہیں جہاں حکومت اپنے ہی منصوبوں پر عمل کرنا چاہتی ہے ۔ ایسے میں منصوبہ بندی کمیشن کو بدلنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا گیا تھا ۔ ملک کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ ادارہ قائم کیا تھا جس نے گذشتہ چھ دہائیوں کے طویل عرصہ میں ملک کی ترقی اور ریاستوں کی ترقی کی رفتار کو مستحکم رکھنے اور انہیں پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ اس ادارہ کوبرخواست کردیا جائے اور اس کی جگہ ایک نیا ادارہ قائم کیا جائے جو موجودہ وقت کی ضرورتوں کی تکمیل کرسکے ۔ مودی حکومت الفاظ کی الٹ پھیر کرتے ہوئے ریاستوں اور چیف منسٹروں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش میں ہے تاکہ اس کو اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع مل سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم مودی نے آج چیف منسٹروں کے اجلاس میں ادعا کیا کہ ان کی حکومت وفاقی تعاون کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ یہ صرف تشہیری حربہ کہا جاسکتا ہے جبکہ اصل عزائم اور مقاصد کچھ اور ہوسکتے ہیں۔ حکومت کا یہ ادعا ہے کہ یہ ادارہ اپنے قیام کے بعد ایک طویل عرصہ گذرجانے کے بعد اب بے کار ہوکر رہ گیا ہے ۔ حکومت کا یہ ادعا اگر درست مان بھی لیا جائے تو اس میں جو خامیاں اور نقائص وقت کی ضرورتوں کے مطابق محسوس کی جا رہی ہیں ان کو دور کرتے ہوئے اسے دوبارہ کارکرد اور موثر بنایا جاسکتا ہے اور اس کو بالکل ہی ختم کرتے ہوئے اس کی جگہ نیا ادارہ قائم کرنا ضروری نہیں کہا جاسکتا ۔ ملک کی ترقی اور اس میں کمیشن کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت زندگی کے ہر شعبہ سے سابقہ حکومتوں کی چھاپ کو ختم کرتے ہوئے اپنا رنگ دینا چاہتی ہے ۔ واضح رہے کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اور انتخابات کے بعد حکومت نے کانگریس سے پاک ہندوستان کا نعرہ دیا تھا ۔ شائد منصوبہ بندی کمیشن کو ختم کرکے نیا ادارہ قائم کرنے کی تجویز کے پس پردہ بھی یہی نعرہ محرک بن رہا ہے ۔ چونکہ یہ کمیشن ملک کے اولین وزیر اعظم پنڈت نہرو نے دیا تھا اس لئے آر ایس ایس نہیں چاہتی کہ یہ ادارہ ہنوز ملک و قوم کی ترقی میں اپنا رول ادا کرتے رہے ۔ آر ایس ایس اور مودی حکومت کانگریس سے پاک ہندوستان کے قیام میں اپنے عزائم کی تکمیل دیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے اس ادارہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مودی حکومت کی منتقم مزاجی ہے جس کی ہندوستانی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے ۔ سیاسی سطح پر ایک دوسرے سے اختلافات کی یقینا گنجائش ہے اور یہ جمہوری عمل کے استحکام کی وجہ بھی کہی جاسکتی ہے لیکن سیاسی مخالفت تعمیری ہونی چاہئے نہ کہ شخصی ۔ نظریاتی اساس پر کسی سے اختلاف اپنی جگہ درست ہے لیکن اس کے نام پر اپنے ناپاک اور فرقہ پرستانہ عزائم کی تکمیل کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ۔ فی الحال مودی حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ سیاسی منتقم مزاجی کا رویہ ہے اور یہ رویہ ہندوستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے جمہوری اصولوں کے مغائر ہی کہا جاسکتا ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ منصوبہ بندی کمیشن جیسے ادارے میں ‘ جس کے قیام کو چھ دہائی کا عرصہ گذر چکا ہے ‘ کچھ خامیاں اور نقائص ہیں ۔ یہ نقائص بھی بدلتے وقت کے تقاضوں کی وجہ سے سامنے آئے ہیں لیکن اس ادارہ کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں موجود خامیوں اور نقائص کو دور کیا جاسکتا ہے ۔ اسے ایک بار پھر بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے موجودہ معاشی صورتحال کے چیلنجس سے نمٹنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے ۔ حکومت کو اس جانب توجہ کرنی چاہئے ۔ جس طرح سے چیف منسٹروں کی اکثریت نے ادارہ کو ختم کرنے کی بجائے اس میں بہتری پیدا کرنے کی تجویز پیش کی ہے وہ قابل قبول ہوسکتی ہے ۔ اب تک جس ادارہ نے ملک و قوم کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے اس کو سیاسی منتقم مزاجی سے بالاتر رکھتے ہوئے اس کے استحکام کیلئے کوشش ہونی چاہئے اور ہر گوشہ ایسی کوششوں کی تائید و حمایت کرے گا۔