منتخب فتاوي

حضرت مولانامفتی محمد عظیم الدینمفتی جامعہ نظامیہ

نفقۂ ناشزہ {نافرمان}
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ ہندہ اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف بلا اجازت اپنے میکہ چلی گئی ۔ ایسی صورت میں کیا ہندہ اپنے ماں باپ کے گھر رہ کر نفقہ پانے کی مستحق ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب: بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں جبکہ ہندہ بلا اجازت شوہر اپنے میکہ گئی ہے تو وہ ناشزہ (نافرمان) ہے اور ناشزہ کا نفقہ جب تک وہ شوہر کے گھر واپس نہ آئے شوہر پر واجب نہیں ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول ص ۵۴۵میں ہے : وان نشزت فلا نفقۃ لھا حتی تعود الی منزلہ والناشزۃ ھی الخارجۃ عن منزل زوجھا والمانعۃ نفسھامنہ۔

کفوء {یعنی برابری}
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسلم خاتون مطلقہ تھی اور اپنی گزربسر کے لئے بیڑی فیکٹری میں بیڑیاں بنانے جایاکرتی تھی وہاں ایک غیر مسلم ملاز م سے محبت پیدا ہوگئی وہ ملازم اسلام سے مشرف ہوکرمتذکرہ خاتون سے نکاح کرنا چاہتاہے چنانچہ اس نے دواخانہ میںاپنی ختنہ بھی کراچکاہے ۔آبادی کے چند مسلم حضرات کہتے ہیں کہ اگر وہ اسلام قبول کرلے توبھی نکاح نہ کیاجائے اور کہتے ہیں کہ اس نے محض اس خاتون کی محبت کی خاطر اسلام قبول کررہا ہے اس لئے نکاح ناجائز ہے۔بناء بریںوہ جبر اور تشدد کررہے ہیںاور اس خاتون اور اس کے والدین سے بات چیت ،لین دین ،خرید وفروخت نہ کرنے کے لئے آبادی کے مسلم حضرات اعلان کرچکے ہیں ۔ ایسی صورت میں شرعاکیاحکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : اگرکوئی غیر مسلم ، اسلام قبول کرلے تووہ ایسی عورت کا کفو نہیںہوسکتا جس کے باپ ،دادا مسلمان ہیں۔ عالمگیری جلد اول ص ۲۹۰ میں ہے : من اسلم بنفس ولیس لہ اب فی الاسلام لا یکون کفأ لمن لہ اب وجدفی الاسلام کذا فی فتاوی قاضی خان۔ اگر کوئی عورت اپنا عقد غیرکفومیں کرلے تو نکاح منعقدہوجائے گا البتہ اس عورت کے ولی کو حق ہوگا کہ بصورت ناراضگی اس نکاح کو فسخ کرادے ۔ جیساکہ اسی کتاب کے ص۲۹۲ میں ہے: ثم المرأۃ اذا زوجت نفسھا من غیرکفء صح النکاح …ولکن للأولیاء حق الاعتراض۔
اگر کسی لڑکی کے اپنا عقد غیرکفو میں کرچکنے کے بعد اس کے ولی نے اپنی رضامندی ظاہرکردی ہو یا خود ولی نے اس کا نکاح غیرکفومیں کیا ہوتو پھر کسی کوکسی قسم کے اعتراض کاحق نہیں ہے۔ عالمگیری جلد اول ص ۲۹۳ میں ہے: واذا زوجت نفسھا من غیرکفء ورضی بہ احد الأولیاء لم یکن لھذا الولی ولالمن مثلہ او دونہ فی الولایۃ حق الفسخ…وکذا اذا زوجھا احد الأولیاء برضاھا کذا فی المحیط۔
پس صورت مسئول عنہا میں بشرط صحت سوال اگر اس خاتون کے والدین ، اس نو مسلم سے عقد پر راضی ہیں یا وہ خود اس خاتون کی خـواہش پر اس کا عقد نومسلم سے کر رہے ہیں تو دوسرے مسلمانوں کو اعتراض یا ترک موالات کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ غیر کفو میں عقدسے اعتراض کا حق صرف لڑکی کے اولیاء کو ہے دوسروں کو نہیں ۔

عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ طلاق کا حق صرف مرد کو کیوں ہے ۔ مرد و عورت کو کیوں نہیں ؟جبکہ نکاح کے منعقد ہونے کے لئے عاقد اور عاقدہ کی رضامندی اور ان کا ایجاب و قبول لازم و ضروری ہے کیونکہ یہ ایک باہمی معاہدہ ہے جوطرفین کی جانب سے طے پاتا ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ یکطرفہ تعلق ختم کرلینے سے یہ رشتہ اورباہمی معاہدہ ختم ہوجائے۔ دوسرے کی رضامندی اور واقفیت کی مطلق ضرورت نہ ہو ؟
جواب : طلاق کا اختیار مرد کو دئے جانے میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ساری زندگی کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی۔ عورت کو ہر قسم کی تکلیف اور ذمہ داری سے محفوظ رکھا گیا۔ اگر ایسے میں عورت کو طلاق کا حق دیا جائے تواس کی بنی بنائی زندگی آناً فاناً ختم ہوجائیگی اور کوئی عقلمند آدمی اپنی زندگی کو برباد کرنا نہیں چاہتا ۔ اس لئے مرد کے تفویض طلاق کا اختیار کیا جانا قرین مصلحت ہے سنن ابن ماجہ ص۱۵۱میںہے: ألطلاق لمن أخذ بالساق۔ اگر کچھ لوگ نادانی سے اس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے نفس قانون یا اس کی مصلحت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔
فقط واﷲ اعلم