کون کس کے ساتھ کتنا مخلص ہے فراز
وقت ہر شخص کی اوقات بتادیتا ہے
مملکت فلسطین اور اسرائیل
فلسطین کو مملکت کے طور پر تسلیم کرلینے سویڈن کے فیصلہ کے بعد اسرائیل نے مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگائی تھی مگر دباؤ کے بعد دوبارہ کھول دیا۔ اس کی یہ حرکت پھر ایک بار بربریت اور اعلان جنگ کے مترادف کارروائی تھی۔ اسرائیل کے خلاف ساری دنیا کی رائے دھیرے دھیرے مجتمع ہورہی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں تحریک منظور ہونے کے بعد سویڈن نے بھی بین الاقوامی قوانین کی تعظیم میں فلسطین کی خود اختیاری حق پر اپنی مہر ثبت کردی ہے۔ فلسطینیوں کو انصاف دلانے اور ان کے جائز حقوق واپس کرنے کے لئے یوروپی ممالک کی تائید اہمیت کی حامل ہے۔ یوروپی یونین سے تعلق رکھنے والے تمام عقائد و سیاسی نظریات سے وابستہ وفود ہر سال فلسطین کا دورہ کرتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لئے درکار اقدامات پر زور دیتے ہیں۔ سویڈن کے اس تازہ اقدام سے اسرائیل کی من مانی کا دور ختم ہوجانا چاہئے کیوں کہ حالیہ دنوں میں برطانیہ، ایرلینڈ، اسپین اور بلجیم کی پارلیمنٹوں میں جو اقدامات ہوئے ہیں اور سویڈن کی پارلیمنٹ میں مملکت فلسطین کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرلینے کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فلسطین کے حق میں یوروپی یونین کے عوام کی رائے مثبت پائی جاتی ہے۔ اس سے یہ بھی اشارہ مل رہا ہے کہ یوروپ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کی جانب مثبت اقدامات کررہا ہے۔ اسرائیلی ناجائز قبضوں کو برخاست کرانے کیلئے ایک الٹی میٹم دینے کا وقت آگیا ہے۔ اگر عالمی طاقتیں اس کے حق میں اسرائیل کو اس کی اوقات دکھائیں تو مشرق وسطیٰ میں امن بحال ہوگا۔ فلسطینیوں پر زیادتیاں، مقامات مقدسہ پر کنٹرول کے ذریعہ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی کو جاری رکھا ہے۔ اگر اسرائیل کی یکطرفہ کارروائیاں روکی نہیں گئیں تو مذاکرات کی راہ نہیں نکلے گی۔ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعہ امن کی ترغیب دینے کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ سویڈن اور یوروپی یونین کے دیگر ملکوں کو چاہئے کہ وہ امریکہ پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرنے کے لئے زور دیا جائے۔ برسوں کے بعد اب فلسطینیوں کو لاکھوں یوروپی عوام کی تائید حاصل ہورہی ہے تو اس تبدیلی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فلسطینی سربراہوں کو مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ کے تعلق سے مغربی پالیسیوں کے گناہوں کی سزا فلسطینی عوام برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ مغربی پالیسیوں کی وجہ سے ہی آج تک اسرائیل غیرمعمولی جارحیت کا مظاہرہ کرتا آرہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے صرف مذاکرات کے لئے زور دینا کافی نہیں ہے بلکہ فلسطینیوں پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور انھیں ان کی ہی سرزمین پر محروس کرکے رکھا گیا ہے ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنا اولین ضرورت ہے۔ اسرائیل کی توسیع پسندانہ کارروائیوں پر فوری پابندی لگانے کے لئے بین الاقوامی قانون کو نافذ کرنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ 1967 ء کی جنگ کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارہ کے علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے اور یہاں 100 سے زائد تعمیرات کرکے پانچ لاکھ یہودیوں کو بھی بسایا ہے۔ یوروپی یونین کے تمام ممالک اگر فلسطین کے حق میں متحد ہوجائیں تو امریکہ اور اسرائیل کو راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔ سویڈن کی طرح دیگر ممالک بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق کے لئے آواز اُٹھائیں تو اسرائیل کے غرور کو توڑا جاسکتا ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا کے چند اہم ممالک اب بھی 1967 ء کی سرحدوں کے تعین کے مطابق مملکت فلسطین کی بنیاد پر فلسطینیوں کی آزادی کے حق کو تسلیم کرنے میں پس و پیش کا شکار ہیں۔ امریکہ کی وجہ سے کئی ملک اپنی رائے ظاہر کرنے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ سویڈن کے اقدام کے بعد برہم اسرائیل نے فلسطینیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ ایک فلسطینی نوجوان کو اس کے گھر میں گھس کر شہید کردینا اور بیت المقدس پر فوج کا پہرہ لگادینا بین الاقوامی قوانین کی نظر میں غیر اُصولی کارروائی ہے تو اسرائیل کے خلاف تمام امن دوست ملکوں کو آواز اُٹھانا چاہئے۔ مغربی ملکوں کی خاموشی کی وجہ سے ہی اسرائیل کے ناپاک عزائم میں دن بہ دن شدت پیدا ہورہی ہے لہذا مغرب کی جانب سے اسرائیل کو دی گئی کھلی چھوٹ کا سلسلہ اب فی الفور ختم کردینا ہوگا۔ مغربی کنارہ میں گزشتہ 26 سال سے اسرائیلی آبادیاں بسائی جارہی ہیں ان میں اب سہ گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس سلسلہ کو ختم کرکے آبادیاں برخاست کرانے کے لئے بین الاقوامی قدم اُٹھانا ضروری ہے۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کے ذریعہ افراط زر کی شرح میں کمی ہوتی ہے تو اس سے عوام کو فائدہ ہوگا ۔ مودی حکومت نے گزشتہ اگست سے پٹرول پر 6 مرتبہ کٹوتی کرتے ہوئے 9.36 روپئے کم کئے ہیں ۔ وقفہ وقفہ سے کٹوتی کا یہ طریقہ عوام کے صبر کو دھیرے دھیرے آزمانے کی ایک حربہ معلوم ہوتا ہے ۔ جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مودی حکومت نے تیل مارکٹنگ کمپنیوں پر زبردست دباؤ ڈالا ہے کہ وہ ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کریں ۔ اس کٹوتی سے افراط زر مزید کم ہوگا ۔ کیا یہ کٹوتی ملک کے طویل مدتی مفاد میں ہوگی ۔ کیوں کہ ہندوستان میں ہنوز 80 فیصد خام تیل درآمد کیا جاتا ہے ۔ عالمی قیمتوں میں مسلسل گراوٹ سے نہ صرف درآمداتی بلوں میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کا اثر روپئے کی قدر پر بھی ہوگا اس کے ساتھ طویل مدتی توانائی سکیورٹی کو بھی نقصان پہونچے گا ۔ بعد ازاں مودی حکومت عوام پر مختلف طریقوں سے بوجھ ڈالے گی تو یہ پٹرول ڈیزل کی موجودہ کٹوتی سے حاصل ہونے والی عارضی راحت کے برعکس شدید بوجھ پڑے گا ۔ حکومت نے اس ماہ سے ہی ڈیزل قیمتوں کو حکومت کے کنٹرول سے آزاد کیا ہے اگر کل ان دونوں پٹرولیم اشیاء پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا تو پھر مہنگائی کم کرنے کے ڈرامہ کی پول کھل جائے گی ۔ عوامی زندگی میں ڈیزل ‘ پکوان گیاس اور کیروسین اہم اشیاء ہیں جن کا راست تعلق مہنگائی سے ہے ۔ جب ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو تاجرین اپنی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں ۔ اب جبکہ پٹرول اور ڈیزل سستا ہورہا ہے تو دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی آنی چاہئیے لیکن مارکٹ کا رجحان صرف اضافہ کی جانب مائل رہتا ہے ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کٹوتی اقدامات کے ساتھ دیگر اشیاء کی قیمتوں پر بھی کنٹرول کو یقینی بنائے ۔ اگر این ڈی اے حکومت کو ملک کے طویل مدتی مفادات کی فکر ہوتی تو وہ قیمتوں میں کمی و اضافہ کے مارکٹ رجحان کو کنٹرول میںکرتی ۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ انتخابات کے بعد فبروری میں دہلی کے انتخابات ہوں گے تو کٹوتی کا یہ سلسلہ برقرار رہے گا ؟