ممتا ۔ مودی ٹکراؤ ؟

وعدے پہ ان کے ہم نے کیا اعتبار بھی
اب کیا خبر کہ وعدے سے جائے مُکر کوئی
ممتا ۔ مودی ٹکراؤ ؟
گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں ملک بھر میں بی جے پی کی لہر نے تقریبا تمام اپوزیشن جماعتوں کو حاشیہ پر لا کھڑا کردیا تھا ۔ ملک میں گذشتہ دس سال سے اقتدار پر رہنے والی کانگریس پارٹی کے پاس صرف 44 نشستیں رہ گئی ہیں ۔ بائیں بازو کی جماعتوں کیلئے اپنی شناخت برقرار رکھنا مشکل ہوگیا تھا ۔ جنتاپریوار کی جماعتوں کا شیرازہ بکھرنے کے اندیشے پیدا ہوگئے تھے ۔ اور علاقائی جماعتوں کو بھی اپنے لئے سیاسی جگہ حاصل کرنا مشکل ہوگیا تھا ۔ایسے میں چند جماعتیں تھیں جنہوں نے اپنے ریاستوں میں متاثر کن کارکردگی دکھائی اور بی جے پی کی لہر کو چلنے کا موقع نہیں دیا ۔ ان میں اوڈیشہ میں بیجوجنتادل ‘ ٹاملناڈو میں آل انڈیا انڈیا انا ڈی ایم کے اور مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس شامل ہیں۔ ان جماعتوں نے نہ صرف اپنی مقامی حریف جماعتوں کو ہی انتخابات میں پچھاڑ دیا بلکہ انہوں نے بی جے پی کو بھی اپنی ریاستوں میں پھلنے پھولنے کا موقع فراہم نہیں کیا ۔ رائے دہندوں نے ان جماعتوں کی کھل کر تائید کرتے ہوئے ان کی پالیسیوں اور پروگراموں پر پسندیدگی کی مہر ثبت کردی تھی ۔ انتخابات کا عمل ختم ہوگیا اور مرکز میں بی جے پی نے نریندر مودی کی قیادت میں حکومت تشکیل دیدی ہے۔ گذشتہ چھ ماہ کے عرصہ میں یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ بی جے پی زیر قیادت حکومت ان جماعتوں کو نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہے جنہوں نے انتخابات میں اس کی دال گلنے نہیں دی تھی ۔ سب سے پہلے ٹاملناڈو میں آل انڈیا انا ڈی ایم کے کو نشانہ بنایا اور چیف منسٹر کی حیثیت سے جئے للیتا کو غیر محسوب اثاثہ جات کے مقدمہ میں سزا ہوگئی اور انہیں جیل جانا پڑا ۔ عدالت کے فیصلے کے بعد جئے للیتا کو چیف منسٹر کی حیثیت سے استعفی دینا پڑا اور ان کے ایک وزیر پنیر سیلوم نے چیف منسٹر کی ذمہ داری سنبھال لی ۔ حالانکہ اقتدار کی باگ ڈور عملا اب بھی جئے للیتا کے ہاتھ ہی ہے لیکن وہ عہدہ سے محروم ہیں۔ جئے للیتا نے بھی لوک سبھا انتخابات میں شاندار کارکردگی دکھائی تھی اور ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تھی ۔ اس کے بعد اب ترنمول کانگریس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ترنمول نے بھی انتخابات میں بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی اور ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی کو ترنمول کی یہ کامیابی بھی ہضم نہیں ہوئی ہے ۔ مغربی بنگال میں شردھا اسکام کی تحقیقات کے نام پر برسر اقتدار جماعت کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ممتابنرجی کی پارٹی کے ایک رکن راجیہ سبھا کو پہلے ہی گرفتار کیا گیا تھا اور اب ان کی پارٹی کے ایک وزیر کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے ۔ یہ اندیشے بھی بے بنیاد نہیں ہیں کہ اس اسکام میں مزید گرفتاریاں بھی ہوسکتی ہیں۔ تحقیقات غیر جانبدارانہ اور منصفانہ ہونی چاہئیں اور اگر واقعی تحقیقات میں کوئی ٹھوس ثبوت ملتا ہے تو پھر ان کارروائیوں کا جواز بھی ہوسکتا ہے لیکن تحقیقات میں کسی طرح کے ثبوت و شواہد کے بغیر اس طرح کی گرفتاریاں اور کارروائی بہتر نہیں کہی جاسکتی ۔ اسی طرح بردوان میں ایک دھماکہ ہوا جس کو تحقیقات کے نام کافی طوالت دیدی گئی ہے ۔ اس دھماکہ کی این آئی اے کے ذریعہ تحقیقات کا حکم بھی ریاستی حکومت سے مشاورت کے بغیر دیدیا گیا ۔ یہ درست ہے کہ قانون کے تحت مرکزی حکومت ایسا کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور اسے ریاستی حکومت سے مشورہ کرنا لازم نہیں ہے ۔ لیکن وفاقیت کے اصولوں اور مرکز ۔ ریاست تعلقات کو مستحکم کرنے مرکزی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ ریاستی حکومت سے مشورہ کرتے ہوئے اس معاملہ کی تحقیقات این آئی اے کے سپرد کرتی ۔ ممتابنرجی نے حالانکہ این آئی اے تحقیقات کو قبول کرلیا ہے لیکن ان کا الزام یہ بھی ہے کہ بردوان دھماکہ کی تحقیقات کے نام پر صرف اقلیتی برادری کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس کا مقصد سماج میں نفرت اور تقسیم کے ماحول کو فروغ دینا ہے ۔ سیاسی مقاصد کیلئے اس طرح کی انتقامی سیاست کا ہندوستانی جمہوریت میں کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور اس سے ہر جماعت کو گریز کرنا چاہئے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی سارے ہندوستان میں کسی اور جماعت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں وہ ہر اس امکانی طاقت کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو ان کے مقابلہ میں کسی طرح کی مزاحمت کرسکتی ہیں۔ ممتابنرجی کا ایک طویل جدوجہد کا ریکارڈ رہا ہے اور انہوں نے مغربی بنگال میں کمیونسٹ جماعتوں کے تین دہوں کے اقتدار کو ختم کردیا ہے اور وہ عوامی لیڈر کہی جاتی ہیں۔ انہوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اقتدار حاصل کیا تھا اور عوام میں انہیں پسند کیا جارہا ہے لیکن نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی انہیں برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔ سیاسی مقصد براری کیلئے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کا عمل انتہائی مذموم ہے اور اس سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ بی جے پی اور اس کی قیادت کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ وہ مخالف بی جے پی طاقتوں کا ملک میں خاتمہ نہیں کرسکتی۔