ملک کے بیشتر شہری علاقے سلم بستیوں میں تبدیل

گاؤں سے منتقلی میں مسلسل اضافہ کے سبب معاشی اور سماجی ڈھانچہ میں زبردست بدلاؤ
حیدرآباد ۔ 6 ۔ دسمبر : ( ایجنسیز ) : ملک کی تقریبا ایک تہائی آبادی 31.16 فیصد اب شہروں میں رہ رہی ہیں ۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق گاؤں چھوڑ کر شہر کی جانب جانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ اگر اعداد و شمار کو غور سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ملک کی زیادہ تر آبادی ابھی بھی اس علاقہ میں رہ رہی ہے ۔ جہاں کا جی ڈی پی شہروں کے مقابلے میں چھٹا حصہ بھی نہیں ہے ۔ یہی سبب ہے کہ گاؤں کی سطح زندگی میں گراوٹ ، تعلیم ، صحت ، بنیادی سہولتوں کا فقدان ، روزگار کی کمی ہے اور لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں شہروں کی طرف آرہے ہیں ۔ آزادی کے بعد سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ تقریبا 50 کروڑ لوگوں نے اپنا آبائی گاؤں روزگار کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔ اقتصادی اور سماجی ڈھانچہ میں بدلاؤ کا سبب بھی یہی ہے ۔ اسی منتقلی کے سبب شہروں کا اربن ، سلم میں تبدیل ہورہا ہے ۔ سن 2011 اور 2001 کی اعداد و شمار کا موازنہ کریں تو اس دوران میں شہروں کی آبادی میں 9 کروڑ دس 5 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے ۔ جب کہ گاؤں کی آبادی 9 کروڑ لاکھ ہی بِڑھی ہے اور اب 16 ویں لوک سبھا کے انتخابات میں دونوں بڑی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشوروں میں کہیں نہ کہیں نئے شہر بسانے کی بات کہی ہے ۔ ملک کے گھریلو پیداوار یعنی ڈی جی پی میں خدمات کا شعبہ 60 فیصدی پہنچ گیا ہے جب کہ زراعت میں دن بہ دن کمی واقع ہورہی ہے جو 15 فیصد تک گھٹ گئی ہے ۔ جب کہ گاؤں کی آبادی ابھی بھی تقریبا 68.84 کروڑ ہے ۔ یعنی ملک کی جملہ آبادی کا دو تہائی اعداد و شمار کے مطابق ملک کی آبادی کا زیادہ تر حصہ اس علاقہ میں رہ رہا ہے جہاں کا جی ڈی پی شہروں کے مقابلہ میں چھٹا حصہ بھی نہیں ہے ۔ سطح زندگی میں گراوٹ کی سب سے اہم وجہ یہی ہے ۔ گذشتہ مردم شماری کے مطابق اترپردیش کی جملہ آبادی کا 80 فیصد حصہ گاؤں میں رہتا تھا اور اس مرتبہ یہ اعداد و شمار 77.7 تک آ پہنچا ہے ۔ یہ بات کافی افسوسناک ہے کہ پورے ملک میں شہروں میں رہنے والے جملہ 7.89 کروڑ خاندانوں میں سے 1.37 کروڑ جھونپڑی میں رہتے ہیں ۔ اور ملک کے دس سب سے بڑے شہری سلم علاقوں میں میرٹھ اور آگرہ کا شمار ہوتا ہے ۔ میرٹھ کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ سلم علاقوں میں رہتا ہے جب کہ آگرہ کی 29.8 فیصد آبادی جھونپڑی اور جھگی میں رہتی ہے ۔ راجدھانی دہلی میں عوامی سہولتیں ، سماجی حالات اور سماجی ڈھانچہ سب کچھ بری طرح لڑکھڑا گیا ہے ۔ ہر روز تقریبا پانچ ہزار نئے لوگ یہاں بستے آرہے ہیں اب یہاں کا ماحول زیادہ بھیڑ کو جھیلنے کے لائق قطعی نہیں ہے ۔ ٹھیک یہی حال ملک کے دیگر سات بڑے شہروں ، مختلف ریاستوں کی راجدھانی اور صنعتی بستیوں کا ہے ۔ ان علاقوں میں مقفل گھروں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ملک کی معیشت کی بنیاد کہے جانے والے زرعی شعبہ اور مویشیوں کے پالنے کی جگہ پر اب مشین رکھنے والے باہری لوگوں کا قبضہ ہورہا ہے ۔ جب کہ روزگار کی تلاش میں گئے لوگوں کے رنگین سپنے ٹوٹ چکے ہیں ۔ ساتھ ہی ان کی واپسی کے راستے ایسا لگتا ہے کہ بند ہوچکے ہیں ۔ گاؤں کے ٹوٹنے اور شہروں کے بگڑنے سے ہندوستان کی سماجی روایات اور معاشی ڈھانچوں کا چہرہ مدھم ہوگیا ہے ۔ شہر بھی ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں ۔ ملک کے 9735 شہر بھلے ہی آبادی سے لبالب ہوں لیکن ان میں صرف 4041 ہی سرکاری دستاویزمیں شہروں میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں سب کھیتوں کو اجاڑ کر مکان کھڑے کردئیے گئے ہیں ۔۔