قبرستان اور درگاہوں کے باہر کچرے کے انبار ، درگاہ حضرت محبوب بی بی صاحبہؒ کا باب الداخلہ کچرا کنڈی میں تبدیل
حیدرآباد ۔ 25 ۔ اپریل : اونچے اونچے محلوں میں رہنے والے زمین کے بڑے بڑے علاقوں پر اپنی حکمرانی کرنے والے بادشاہ اور حکمرانوں کے علاوہ کچی مٹی اور گھاس پھوس کی چھت تلے جھونپڑی میں رہنے والے ایک غریب کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق کیوں نہ ہو لیکن جب جسم سے آخری سانس نکل جاتی ہے تو پھر امیر سے امیر حکمران اور غریب سے غریب آدمی کو 2 گز کے گڑھے میں اتار دیا جاتا ہے اور یہ قبر اس کے آخرت کے سفر کی پہلی منزل ہوتی ہے ۔ تاجدارے مدینہ رسول عربی محمد ؐ نے بھی امت کو سیکھایا ہے کہ وہ قبرستان جایا کرے کیوں کہ قبرستان جاتے رہنے سے آخرت کی یاد تازہ اور موت کی سختی کا تصور ذہن میں تازہ ہوتا ہے ۔ لیکن اس کا خود عمل اتنا شیطانی ہے کہ اس پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی کتنی ناراضگی ہورہی ہے اس کا اندازہ لگایا بھی نہیں جاسکتا ہے ۔ ایسی ہی ناراضگی ملک پیٹ کی عوام میں بھی ہے کیوں کہ یہاں ایک قدیم قبرستان اور درگاہ کی بے حرمتی کا جو عملی نمونہ کئی برسوں سے جاری ہے ۔ اپنے آباواجداد کے علاوہ تیرے مقرب بندوں کی آخری آرام گاہ کو کچرا کنڈی میں تبدیل کردیا ہے ۔ مسجد ادارہ ملیہ کے نزد اولڈ ملک پیٹ کی مین روڈ پر موجود حضرت محبوب بی بی صاحبہؒ قبرستان کے معائنہ پر اس کو قبرستان کسی بھی صورت میں نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ اس کے باب الداخلہ پر ایک بڑی کچرا کنڈی موجود ہے جس کے اطراف کچرے کے انبار پھیلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہ باب الداخلہ کچرا کنڈی میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ اس باب الداخلہ پر موجود آہنی گیٹ کے اوپر ایک لوہے کی کمان موجود ہے جس پر ’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘ کے بعد ’ رب الغفرلی و تب علی انک انت التواب الرحیم ‘ ۔ میرے پروردگار مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما ، بے شک تو بہت توجہ قبول فرمانے والا رحم کرنے والا ہے ‘ جو جلی حروف میں تحریر ہے جس کے بالکل نیچے غفلت ، لاپرواہی اور بار بار مقامی عوام کی توجہ دلوائے جانے کے بعد بھی ارباب مجاز کی مجرمانہ لاپرواہی کا نتیجہ کچرا کنڈی کی شکل میں موجود ہے ۔ مقامی افراد کے الفاظ میں ارباب مجاز اور مقامی نمائندوں کے متعلق غم و غصہ صاف جھلک رہا تھا ۔ ایک بزرگ نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کا خوف دلواتے ہوئے ہم سے ووٹ مانگیں جاتے ہیں اور اس کے بدلے ہمیں بنیادی مسائل کے ختم نہ ہونے والے مصائب دئیے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ قبرستانوں کی بے حرمتی کو بھی معیوب نہیں سمجھا جارہا ہے جس کی ایک مثال اس قبرستان کی بے حرمتی ہے جس کا باب الداخلہ کچرا کنڈی میں تبدیل ہوچکا ہے جس کی وجہ سے نہ ہم اندر جاسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے اسلاف کی قبروں پر چادر گل چڑھا کر ان کے لیے دعائیں کرسکتے ہیں ۔ عوام نے یہ بھی شکایت کی کہ مسلمانوں کی بستی ، قائد مسلم ، کارپوریٹر مسلمان ہونے کے باوجود متعدد مرتبہ اس کچرا کنڈی کو ہٹانے کا مطالبہ کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور آج بھی قبروں کی بے حرمتی کی یہ ایک زندہ مثال ہے ۔ عوام کا سوال اور ان کا غم و غصہ جائز ہے کیوں کہ قبرستان میں آرام کرنے والے اللہ کے مہمانوں سے لے کر بستی میں رہنے والے مقامی لوگ ، کارپوریٹر ، نمائندہ سبھی مسلمان ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود قبور کی اس بے حرمتی کو معیوب نہیں سمجھا جارہا ہے ۔ اگر ارباب مجاز کو آخرت کا بھی ڈر نہیں تو پھر ان کی رعایا کا اب اللہ ہی محافظ ہے ۔ قارئین ہم اپنے قائدین سے اکثر سنتے ہیں کہ ’ ہم مٹی کی غذا بن جائیں گے ‘ ۔تو کیا ان قائدین کو اس درگاہ کی بے حرمتی دکھائی نہیں دیتی یا پھر ان کے قول و فعل صرف جذباتی تقریروں تک محدود ہیں ؟ ۔۔