ملک سلمان۔صدر پوٹن کی شام پربات چیت

شام کے بحران کی یکسوئی کی کوشش ‘ اقوام متحدہ میںدو دن بعد اس مسئلہ پر بحث مقرر

ماسکو۔27ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) صدر روس ولادمیرپوٹن نے سعودی عرب کے ملک سلمان سے شام کے بحران کا  حل تلاش کرنے کیلئے بات چیت کی ۔ دو دن بعد ہی اقوام متحدہ میں اس مسئلہ کی یکسوئی کیلئے بحث مقرر ہے ۔  کریملن کے بموجب صدر روس کی ملک سلمان سے ٹیلیفون پر بات چیت کے دوران دونوں میں علاقائی صیانتی مسائل پر اپنے اپنے نظریات پیش کئے ۔ یہ دونوں کی اولین بات چیت کی جس کا مقصد شام کے تنازعہ کی یکسوئی کے طریقہ تلاش کرنا تھا ۔ کریملن کے ویب سائیٹ پر شائع شدہ بیان کے بموجب دونوں قائدین نے  زیادہ مؤثر بین الاقوامی تعاون کے قیام کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مبینہ دولت اسلامیہ اور دیگر دہشت گرد گروپس کا مقابلہ کیا جاسکے ۔

حکومت دمشق کا برسوں سے حامی روس مستقل طور پر صدر بشارالاسد کی گذشتہ ساڑھے چار سالہ خانہ جنگی کے دوران جس میں دو لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک کئے جاچکے ہیں ‘ تائید کرتا رہا ہے ۔ سعودی عرب امریکہ زیر قیادت اتحاد کا حصہ ہے جس نے گذشتہ ستمبر سے شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف مہم شروع کررکھی ہے اور زور دے کر کہتا ہے کہ وہ اسد حکومت سے کبھی بھی تعاون نہیں کرے گا ۔ پیر کے دن پوٹن نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے اور شام کے لئے روس کے لائحہ عمل کا خاکہ پیش کریں گے ۔ خاص طور پر موجودہ اتحاد میں توسیع کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کریں گے جس میں صدر اسد کی فوج بھی شامل کی جائے تاکہ دولت اسلامیہ کا مقابلہ کیا جاسکے ۔ وہ صدر امریکہ بارک اوباما سے بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران علحدہ طور پر ملاقات بھی کریں گے ۔ دونوںقائدین کی یہ اولین رسمی بات چیت ہوگی ۔ روس قبل ازیں شام میں تعینات اپنی فوج اور جنگی طیاروں میں اضافہ کرچکا ہے جو ایک فوجی اڈہ پرموجود ہیں ۔ اس کے علاوہ نئے ہتھیار بھی بشارالاسد کی فوجوں کو سربراہ کئے گئے ہیں ۔ گذشتہ ہفتہ شامی فوج نے روسی ڈون طیارے پہلی بار جہادیوں کے خلاف استعمال کئے تھے ۔ ہفتہ کے دن شامی فوج کے ذریعہ نے خبر دی کہ کم از کم 15روسی مالبردار طیارے جو آلات اور ارکان عملہ کو منتقل کررہے تھے ۔ حمیم فوجی اڈہ پر گذشتہ دو ہفتہ سے اتر رہے ہیں ۔ یہ فوجی اڈہ مغربی شام میں واقع ہے ۔ روس کی فوج کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے جب کہ امریکہ کی پالیسی شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں وسعت پیدا کرچکی ہے ۔

امریکہ نے بشارالاسد کے خلاف جنگ کرنے والے باغیوں میں سے اعتدال پسند افراد کی بھرتی ‘ ان کی تربیت اور انہیں ہتھیاروں سے آراستہ کرنے کیلئے 50 کروڑ امریکی ڈالر مالیتی پروگرام بنایا ہے لیکن اس پروگرام میں مسلسل تاخیر ہورہی ہے ۔ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اب تک زور دیتے رہے ہیں کہ شام میں بشارالاسد کا کوئی مستقبل نہیں ہے لیکن حالیہ عرصہ میں اُس کی پالیسی میں تبدیلی کی علامیتیں نظر آرہی ہیں ۔ غالباً وہ نئی حکومت کی تشکیل تک بشارالاسد کو عبوری کردار ادا کرنے کی اجازت دینا چاہتا ہے ۔ گذشتہ جمہ کو ایک روسی سفارتکار نے امریکہ زیر قیادت اتحاد میں شرکت کا اشارہ دیا تھا جو دولت اسلامیہ کے خلاف قائم کیا گیا ہے اور اس کی کارروائی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت کرنے کا بھی نظریہ پیش کیا تھا ۔ صدر روسی وزارت خارجہ کے شعبہ نئے چیلنجس و خطرات کے سربراہ ایلیا ریگٹ چیف نے کہا کہ یہ ایک امکانی نظریہ ہے کہ تمام فریقین کو اتحاد میں شامل کیا جائے ‘ بشرطیکہ اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری حاصل ہو ۔ روس نے قبل ازیں تجویز پیش کی تھی کہ صدر بشارالاسد کو شامل کرتے ہوئے ایک مخلوط قومی حکومت تشکیل دی جائے جو نئی حکومت کے قیام تک عبوری کردار ادا کرے ‘تاہم امریکہ نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا اور اصرار کیا تھا کہ صدر بشارالاسد کو اقتدار سے دستبردار ہوناچاہیئے ‘ اسکے بعد ہی کوئی حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے ۔