پشاور ۔ 5 جون (سیاست ڈاٹ کام) ایک چونکا دینے والی دریافت میں 10 افراد میں سے 8 جو ملالہ یوسف زئی پر گولی چلانے کے جرم میں قید تھے، پاکستانی طالبان کے ارکان کو خفیہ طور پر رہا کردیا گیا ہے۔ انہیں انسداد دہشت گردی عدالت میں مجرم قرار دیا تھا جس کے بعد انہیں قید کردیا گیا تھا۔ تاہم ذرائع کے بموجب بی بی سی نے توثیق کی ہیکہ صرف دو افراد کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انہیں مجرم قرار دیا گیا۔ وہ اپنی عمر قید کی سزاء بھگت رہے ہیں جبکہ 8 عسکریت پسندوں کو جن پر قاتلانہ حملہ کے جرم میں مقدمہ چلایا جانا چاہئے تھا اور قید میں ہونا چاہئے تھا، خفیہ طور پر رہا کردیئے گئے ہیں۔ لندن میں پاکستانی سفارتخانہ کے ترجمان منیر احمد نے آج کہا کہ 8 افراد کو ثبوتوں کے فقدان کی بناء پر بری کردیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلہ پہلی بار جاریہ ہفتہ تقریباً ایک ماہ کی سماعت کے بعد منظرعام پر آیا۔ دو افراد جنہیں مجرم قرار دیا گیا ہے اور جنہوں نے 2012ء میں ملالہ یوسف زئی پر گولی چلائی تھی، عمر قید کی سزاء بھگت رہے ہیں۔ اعلیٰ سطحی صیانتی ذریعہ کے بموجب رسالہ مرر میں خبر شائع کی گئی ہے جس کے بموجب مقدمہ کی قطعی طور پر کوئی ساکھ نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی شخص بطور گواہ موجود نہیں تھا۔ وکیل استغاثہ، ایک جج، فوج اور ملزم مقدمہ کی سماعت کے وقت حاضر تھے۔ 10 افراد اس جرم کیلئے قید میں نہیں ہیں۔ پاکستانی عہدیداروں کو یقین ہیکہ یہ ایک بڑا جھوٹ ہے۔ سلیم مروات ضلع پولیس سربراہ سواک جہاں 14 سالہ ملالہ پر حملہ کیا گیا تھا، نے علحدہ طور پر توثیق کی کہ صرف دو افراد مجرم قرار دیئے گئے ہیں اور عدالت نے انہیں عمر قید کی سزاء سنائی ہے۔ یہ درست ہیکہ صرف دو افراد اپنی سزاء بھگت رہے ہیں۔ دیگر پولیس عہدیدار نے کہا کہ 8 افراد کو جو فوج کی تحویل میں تھے، نامعلوم طور پر منتقل کردیا گیا ہے اور مبینہ طور پر انہیں رہا کردیا گیا ہے جس کی منظوری خود عدالت نے دی ہے۔