مقام واردات سے ضبط کی گئی اشیاء فارنسک لیباریٹری منتقل کی

گواہوں کے بیانات بھی قلمبند کئے، چندرائن گٹہ حملہ مقدمہ میں تحقیقاتی عہدیدار کا بیان

حیدرآباد ۔ /26 اپریل (سیاست نیوز) چندرائن گٹہ حملہ کیس کی سماعت روزانہ کی اساس پر جاری ہے اور آج اس کیس کے تحقیقاتی عہدیدار مسٹر ایم سرینواس راؤ حاضر عدالت ہوئے جہاں پر وکیل دفاع نے ان سے جرح کی ۔ ایڈوکیٹ جی گرومورتی کی جانب سے کئی گھنٹوں کی جرح کے دوران گواہ نے بتایا کہ اکبر الدین اویسی حملہ کیس کو اس وقت کے کمشنر آف پولیس مسٹر اے کے خان کی ہدایت پر چندرائن گٹہ پولیس اسٹیشن سے سنٹرل کرائم اسٹیشن منتقل کیا گیا تھا اور اس کیس کو دوبارہ درج کرتے ہوئے انہوں نے تحقیقات کا آغاز کیا تھا ۔ مسٹر سرینواس راؤ نے عدالت میں یہ اعتراف کیا کہ سال 2011 ء میں متحدہ آندھراپردیش میں کانگریس کی حکومت تھی لیکن انہیں یہ یاد نہیں ہے کہ جی ایچ ایم سی انتخابات میں ایم آئی ایم پارٹی اور کانگریس نے میئر کے عہدہ کو آپس میں تقسیم کرلیا تھا جس کے نتیجہ میں کارتیک ریڈی اور ایم اے ماجد میئر تھے ۔ مسٹر سرینواس راؤ نے بتایا کہ رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی اور اکبر الدین اویسی دونوں حقیقی بھائی ہیں ۔ اس بات کو غلط قرار دیا کہ اکبر الدین اویسی کی جانب سے اثر انداز ہونے پر اس وقت کے چیف منسٹر اور کمشنر پولیس اے کے خان نے ان کے خلاف درج کیا گیا مقدمہ کو پوشیدہ رکھا ۔ انہوں نے اس بات سے بھی انکار کردیا کہ کمشنر پولیس کی ہدایت پر انہوں نے کاؤنٹر کیس کے حقائق کو پوشیدہ رکھا ۔ مسٹر سرینواس راؤ نے بتایا کہ کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری حاصل کرنے کے بعد مقام واردات مرحبا ہوٹل بارکس پہونچ کر وہاں کا معائنہ کیا اور بعض گواہوں کے بیانات بھی قلمبند کئے ۔ گواہ نے بتایا کہ مقام واردات سے ضبط کی گئی اشیاء بشمول ریبان عینک ، بندوق کا کور اور موبائیل فون کور کے علاوہ زخمیوں کے ملبوسات کو اسٹیٹ فارنسک لیباریٹری منتقل کیا تھا ۔انہوں نے یکم مئی 2011 ء کو یعنی حملے کے دوسرے دن اویسی ہاسپٹل پہونچ کر بعض گواہوں سے رابطہ قائم کیا اور جو بیان دینے کے قابل تھے ان کا بیان بھی قلمبند کیا ۔ اسی طرح وہ تحقیقات کے سلسلے میں یشودھا ہاسپٹل پہونچے تھے جہاں پر ہاسپٹل انتظامیہ نے یہ بتایا تھا کہ حملے کے دوران زخمی دو نوجوان کی سرجری جاری ہے اور وہ سرجیکل انٹینسیو کیر یونٹ میں زیرعلاج ہے ۔ /13 مئی کو دواخانہ سے ڈسچارج ہونے کے بعد ہی دو ملزمین کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد انہیں یہ معلوم ہوا کہ ابراہیم بن یونس یافعی  پر جانی میاں گن مین کی 9 ایم ایم پستول سے فائرنگ کرنے پر ان کی موت واقع ہوئی ۔ وکیل دفاع نے مسٹر سرینواس راؤ کی جانب سے کی گئی تحقیقات کا مختلف زاویوں سے جرح کی اور عدالت نے کیس کی سماعت کو /28 اپریل تک ملتوی کردیا ۔ کیس کی سماعت کے موقع پر پولیس نے سخت سکیورٹی کے درمیان محمد بن عمر یافعی المعروف محمد پہلوان اور ان کے دیگر افراد خاندان کو عدالت میں پیش کیا ۔