مفاد پرستی کی سیاست

ہے عصری سیاست تو مفادات کی پابند
اقدار اور اصول کتابوں میں ملیں گے
مفاد پرستی کی سیاست
ہندوستان کی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناکر کی گئی کارروائی اور سرجیکل حملوں کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اوچھی سیاست شروع ہوگئی ہے ۔ فوج نے جو کارروائی کی ہے اس سے سارا ملک مطمئن ہے اور وہ اس کارروائی کی تائید و حمایت کرتا ہے ۔ تاہم سیاسی جماعتوں نے اس مسئلہ پر ماحول بگاڑ دیا ہے ۔ سرجیکل حملوں کے بعد جس طرح کی صورتحال پیدا کردی گئی ہے وہ ہماری فوج کے کارناموں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے ۔ سیاسی جماعتیں ‘ جن کا سرجیکل حملوں یا دفاعی امور سے کوئی تعلق یا سروکار ہی نہیں ہوتا ‘ ان حملوں کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔ جہاں برسر اقتدار بی جے پی کی جانب سے ان حملوں کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور فوج کے رول کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے وہیں اپوزیشن جماعتیں اس صورتحال میں حکومت کو زیادہ فائدہ لینے کی کوشش میں کامیاب ہونے کا موقع دینا نہیں چاہتیں۔ ایسے میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین تنقیدوں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ اوچھی سیاست کو پوری شدت کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ ہر جماعت اپنے طور پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کوشاں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں خود اپنے ہی ملک میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوگئی ہیں ۔ اس مقصد کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں اور حساس و اہمیت کے مسائل کو بھی عوامی حلقوں میںموضوع بحث بنانے بھی تیار رہتی ہیں۔ سرجیکل حملوں کے بعد کی صورتحال ایسی ہی بن گئی ۔ جب برسر اقتدار جماعت کے قائدین اور وزرا کے علاوہ حلیف جماعتوں کے قائدین نے اس کارروائی کا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش تو اپوزیشن کی صفوں میں بھی ایسے قائدین سرگرم ہوگئے جنہوں نے اپنے تبصروں اور جوابی ریمارکس کے ذریعہ حالات کا رخ ہی بدل دیا اور عوام کی سوچ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے ۔ اب بحث پاکستان یا دہشت گردی سے ہٹ گئی ہے ۔ بحث اس بات پر کی جا رہی ہے کہ آیا سرجیکل حملے ہوئے بھی ہیں یا نہیں؟ ۔ ایسے وقت میں جبکہ پاکستان ان حملوں کی حقیقت سے انکار کر رہا ہے اس طرح کے سوالات پیدا کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔
بی جے پی کی جانب سے ان حملوں کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے علیحدہ مشنری سرگرم ہوگئی تھی ۔ ملک میں کچھ شہروں میں ان حملوں کے فوری بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی ستائش میں پوسٹرس اور بیانرس نصب کردئے گئے ۔ اس کا مقصد محض سیاسی فائدہ حاصل کرنا تھا اور اس میں اس بات کا خیال بھی نہیں رکھا گیا کہ یہ حملے ہماری فوج نے کئے ہیں کسی سیاسی لیڈر یا وزیر یا کسی اور ذمہ دار نے سرحد پار جا کر ایسا کام نہیں کیا ہے ۔ حالانکہ ہر کوئی خود پر عائد ہونے والے الزامات سے انکار کر رہا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسا ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے سیاسی فائدہ حاصل ہوجائے ۔ اب جبکہ اتر پردیش ‘ پنجاب اور گجرات میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں ہر جماعت عوام کے ذہنوں پر چھائی رہنا چاہتی ہے ۔ ہر کوئی کسی نہ کسی بہانے سے خبروں میں رہنا چاہتا ہے ۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ رائے دہندے ان کے تعلق سے مباحث اور اظہار خیال کا حصہ بنے رہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے موقف کو زیادہ موثر انداز میں عوام تک پہونچایا جائے لیکن سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی اس تگ و دو میں قومی مفاد کو کہیں پس منظر میں ڈھکیل دیا گیا ہے ۔ اہمیت کے حامل اور حساس امور کو ہر خاص و عام کے مابین موضوع بحث بنادیا گیا ہے ۔ ایسے مقامات پر بھی اس مسئلہ پر مباحث اور اظہار خیال کا سلسلہ چل پڑا ہے جہاں اس کا تذکرہ کرنا بھی درست نہیں ہوتا ۔ یہ سب کچھ سیاسی مفاد پرستی کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس کے ذمہ دار وہ سیاسی قائدین ہیں جو کسی بھی قیمت پر سیاسی مقصد براری کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔
اب کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ بھی اس بحث کا حصہ بن گئے ہیں اور ایسے تبصرے کر رہے ہیں جو انہیں نہیں کرنے چاہئے ۔ کانگریس نائب صدر نے فوج کی کارروائی کو تو حق بجانب قرار دیا لیکن انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر اپنی تنقیدوں کو جاری رکھتے ہوئے ان پر ملک کیلئے جان دینے والے سپاہیوں کے خون کی دلالی کرنے کا الزام عائد کردیا ۔ بی جے پی شائد چاہتی بھی یہی تھی کہ اس کے تعلق سے ایسا کوئی ریمارک کیا جائے جس سے اسے مابعد سرجیکل حملوں کے پیدا شدہ صورتحال سے ہو رہی خفت مٹانے کا موقع مل جائے ۔ اسے راہول گاندھی کے ریمارک سے یہ موقع ملتا نظر آ رہا ہے ۔ یہ بھی سیاسی مقصد براری ہے اور بی جے پی ہو یا کانگریس یا دوسری جماعتیں سبھی کو اس سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔