حیدرآباد۔ 4 جون (پریس نوٹ) ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمد محمود علی نے آج اُردو مسکن، خلوت میں دو روزہ قومی سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ریاستی حکومت اُردو زبان اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے تمام ممکن اقدامات کرے گی۔ نصاب تعلیم میں قطب شاہی اور آصف جاہی حکمرانوں کی تاریخ کو شامل کیا جائے گا۔ اُردو تمام سرکاری، خانگی اور کارپوریٹ اسکولوں میں اُردو کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے گا اور جہاں کہیں 10 بچے ہوں، وہاں اردو کی تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 57 برسوں کے دوران اُردو زبان کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ یہ ہماری زبان ہے اور ہم ہی اس کو ترقی دیں گے۔ انہوں نے چیف منسٹر جناب کے چندر شیکھر راؤ کی قیادت میں حکومت تلنگانہ کے ترقیاتی پروگراموں اور پالیسیوں کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے اُردو اکیڈیمی کو تجویز پیش کی کہ وہ معمر اُردو صحافیوں اور ادیبوں کو آسرا اسکیم کے خطوط پر ماہانہ پینشن جاری کرنے پر غور کرے۔ انہوں نے اُردو مسکن کو ایرکنڈیشنڈ بنانے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ حکومت نے اقلیتوں کی ترقی کیلئے جو بجٹ مختص کیا ہے، اس کو مکمل طور پر خرچ کیا جائے گا۔ انہوں نے خواتین سے خواہش کی کہ وہ گھروں میں خودروزگار کا کام کریں، حکومت ان کی ہر ممکن مدد کرے گی۔ سلوائی سیکھنے والی خواتین کو ایک، ایک مشین دی جائے گی۔
یہ دو روزہ قومی سیمینار ریاست تلنگانہ کے یوم تاسیس کی مسرت میں محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے چار روزہ تہذیبی و ادبی پروگراموں کے ضمن میں منعقد ہوا۔ ڈائریکٹر سکریٹری اُردو اکیڈیمی پروفیسر ایس اے شکور نے خیرمقدم کرتے ہوئے اُردو زبان کو فروغ دینے اور اُردو تعلیم کو ترقی دینے کے لئے اُردو اکیڈیمی کی کاوشوں کی تفصیلات بیان کیں اور کہا کہ اُردو کا معیار تعلیم گھٹتا جارہا ہے۔ اس میں اضافہ کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں سب سے بڑا بجٹ تلنگانہ کی اُردو اکیڈیمی کا ہے، اکیڈیمی کی کئی اسکیمات ہیں جن سے عوام کو روشناس کروانے اور شعور بیدار کرنے کے لئے بھی کئی پروگرام چلائے جارہے ہیں اور اُردو اکیڈیمی کی جتنی بھی اسکیمیں ہیں، ان میں ہر اسکیم پر صدفیصد عمل کیا جائے گا۔ پروفیسر عبدالستار دلوی (ممبئی) نے افتتاحی اجلاس کی صدارت کی۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ اُردو اکیڈیمی انتہائی فعال اور کارکرد ہے اور ملک بھر میں اس کا رول انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُردو مشترکہ تہذیبی ورثہ ہے اور آج کا دور بچوں کی اُردو میں تربیت اور ذہن سازی کا ہے۔ آج غیراُردو داں بھی اُردو کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ پروفیسر اشرف رفیع نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے قطب شاہی دور سے لے کر آج تک اُردو کے موقف پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ آصف جاہی دور اُردو کی ترقی کا سنہرا دور رہا ہے۔
موجودہ چیف منسٹر جناب چندر شیکھر راؤ اُردو دوست ہیں اور توقع ہے کہ ان کی سرپرستی میں اُردو کے سنہرے دور کا احیاء ہوگا۔ ممتاز صحافی جناب نسیم عارفی نے اُردو زبان کی تباہی اور تنزل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس تباہی کے لئے حکومتیں بھی ذمہ دار رہی ہیں۔ اُردو اسکول کم ہورہے ہیں اور اب کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سابقہ حکومتوں کا رویہ بے حسی اور لاپرواہی کا رہا ہے۔ موجودہ چیف منسٹر اُردو اور مسلمانوں کی ترقی کیلئے مدبرانہ فیصلے کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب صرف دینی مدارس میں اُردو کا چلن ہے۔ سینئر صحافی جناب میر ایوب علی خاں نے کہا کہ تحریک آزادی کے بعد جو اُردو صحافت ابھری تھی، وہ اب روبہ زوال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُردو پڑھنے والے اور اُردو اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر مصطفی کمال نے کہا کہ اُردو اخبارات جس صورتحال کا شکار ہیں، اس کا حل ڈھونڈھ نکالنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی۔ پروفیسر بیگ احساس نے کارروائی چلائی اور شکریہ ادا کیا۔ سمینار کا پہلا اجلاس دوپہر میں پروفیسر عبدالستار دلوی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر فضل اللہ مکرم، پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈاکٹر حبیب نثار اور پروفیسر فاطمہ پروین نے مقالے پیش کئے۔ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون نے نظامت کی۔