معتمد خارجہ ہند جئے شنکر نے پاکستانی معتمد خارجہ عزیز احمد چودھری سے ملاقات کرکے ہند ۔ پاک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے درمیان کئی تنازعات کو دور کرنے کے مقصد سے بات چیت کی ہے ۔ جئے شنکر کو دراصل پاکستانی معتمد خارجہ سے ساؤتھ ایشیا اسوسی ایشن برائے علاقائی تعاون سارک سے مربوط مسائل پر تبادلہ خیال کرنا تھا ۔ دونوں جانب کشیدگی کی اصل وجہ سرحدپار سے جاری اندھا دھند فائرنگ کے واقعات ، دراندازی اور ممبئی حملوں کے بارے میں حکومت پاکستان کی سردمہری ہے ۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کے حامل دو پڑوسی ملکوں میں کشیدگی کو زیادہ دن تک برقرار کھ کر حالات کو خطرناک مستقبل کی طرف ڈھکیلا نہیں جاسکتا ۔ پاکستان کی جانب سے جنوری میں سرحد پر کی گئی فائرنگ سے جموں و کشمیر میں کم از کم ایک درجن کشمیری عوام ہلاک ہوئے اور ہزاروں افراد کو اپنے گھربار چھوڑکر چلے جانا پڑا تھا ۔ جموں و کشمیر میں نئی حکومت سازی کے بعد مرکز کی نریندر مودی حکومت نے وادی کشمیر میں اپنی پارٹی کے بعض ترجیحات کے باوجود پاکستان کے ساتھ پائی جانے والی کشیدگی کو نامناسب سمجھا ہے ۔
وزیراعظم مودی کی ہدایت پر ہی معتمد خارجہ جئے شنکر نے سارک ملکوں کے دورہ کے حصہ کے طورپر اسلام آبا کا بھی دورہ کیا ۔ اس دورہ سے یہ توقع پیدا ہونا یقینی ہے کہ دونوں جانب بہت جلد معتمد خارجہ سطح کی بات چیت شروع ہوگی ۔ پاکستان بھی جامع مذاکرات کے لئے کوشاں ہے مگر اب تک اس طرح کے جامع مذاکرات کا باقاعدہ انعقاد عمل میں نہیں آیا ۔ دونوں ملکوں نے کشمیر کے بشمول کئی مسائل کو حل کرنے کی وقتاً فوقتاً مساعی کی ہے مگر اس میں کامیابی نہیں ملی ۔ سرحد پار کی دہشت گردی اور سرحد پار فائرنگ اور آبی مسائل نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے دور رکھا ہے ۔ اب معتمد خارجہ نے پاکستان پہونچ کر بات چیت کے احیاء کے لئے بنیادی کام کیا ہے تو آگے چل کر مذاکرات کا عمل یقینی ہوگا ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ اگست میں کشمیر میں علحدگی پسندوں کو نئی دہلی میں پاکستان کی جانب سے دعوت دیئے جانے کے واقعہ کے بعد اسلام آباد میں مقررہ مذاکرات کے آخری مرحلہ کو منسوخ کردیا تھا ۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی ۔
وقت ایک بہترین مرہم ہوتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ناراضگی رکھنے والے وزیراعظم مودی نے ہی معتمد خارجہ کو پاکستان روانہ کرکے باہمی مذاکرات کے احیاء کی سمت قدم اُٹھایا ہے ۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم نے اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے فون پر بات چیت بھی کی تھی ۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اس حد تک نچلی سطح کو پہونچ گئے تھے کہ یہاں سے اوپر اٹھنے کیلئے خیرسگالی کے جذبہ کا مظاہرہ ضروری تھا جس پر نریندر مودی نے عمل کیا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ جب کبھی معتمدین خارجہ سطح کی بات چیت ہوتی ہے اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوتی ۔ یہ بات چیت برائے نام ہی ثابت ہوتی ہے ۔ جئے شنکر کا یہ دورہ صرف سارک یاترا کے تحت مانا جارہا ہے ۔ سارک ملکوں کو باہمی طورپر علاقائی تعاون کے عہد کو پورا کرنا ہے اور آئندہ سارک کی میزبانی پاکستان کررہا ہے تو ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کرنا ایک مجبوری ہوسکتا ہے ۔
جئے شنکر کا یہ دورہ سارک یاترا سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا اور مذاکرات کے پیشرفت میں بھی معاون ثابت نہیں ہوسکتا ۔ وزیراعظم نریندر مودی جب پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے حد سے زیادہ احتیاط پسندی سے کام لینا چاہتے ہیں تو پھر پڑوسی ملک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی اُمید رکھنا فضول ہوگی ۔ حقیقت پسندی سے ہٹ کر کوئی بھی قدم کامیاب نہیں ہوگا ۔ پاکستان کو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرگرم رول ادا کرتے ہوئے ہی وہ اپنے پڑوسی ملک کو یقین دلاسکتا ہے کہ دہشت گردی کا سر کچلنے کیلئے وہ بھی سنجیدہ ہے اس لئے باہمی مذاکرات میں پیشرفت وقت کا تقاضہ سمجھا جارہا ہے۔ تعمیری مذاکرات اور مثبت فضاء کو ترجیح دینا ضروری ہے ۔ معتمد خارجہ ہند جئے شنکر کو پاکستان میں اپنے دورہ کے مقصد کے حصول کے لئے مثبت کوشش کرنے کی ضرورت تھی۔ اُنھوں نے سارک ملکوں کے یاترا کے حصہ کے طور پر یہ دورہ کیا ہے۔ اگر اِس دورے کے بعد بھی دونوں ملکوں میں بات چیت کا احیاء نہیں ہوتا ہے تو صورتحال جوں کی توں برقرار رہے گی۔ مودی حکومت کو پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے استوار میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ سارک کانفرنس کے حوالہ سے ہی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے احیاء کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ بات چیت سے ہی مسائل کی یکسوئی ممکن ہے۔