جوگیا کھیرا میں قائم حیدرآباد ملت پبلک اسکول میں 313 لڑکے، لڑکیوں کے داخلے
جناب زاہد علی خاں نے معائنہ کیا، سرپرستوں اور طلبہ میں زبردست جوش و خروش
حیدرآباد۔یکم اپریل، ( سیاست نیوز) مظفر نگر فسادات میں مظلوم نہتے مسلمانوں کو جس طرح قتل کیا گیا، ان کی خواتین اور لڑکیوں کی عصمت تار تار کی گئیں اور اپنی جانیں بچاکر ریلیف کیمپوں میں زندگی گذارنے والوں کی زندگیاں جس طرح اجیرن کی گئیں، اس کی مثال آزاد ہندوستان میں بہت کم ملتی ہے۔ مظفر نگر فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجہ میں 60 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ چالیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو ریلیف کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ یو پی کے اس ضلع میں مسلم مَردوں کی چیخیں، خواتین کی آہیں، معصوم بچوں کی رونے کی آوازیں جب حیدرآباد تک پہنچیں تو ایڈیٹر ’سیاست‘ جناب زاہد علی خاں بے چین ہو اُٹھے۔ مظلوموں کی تڑپ اور حالت زار دیکھ کر اُن کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوگئے اور پھر ’’سیاست‘‘ نے عملی طور پر مظلوم مسلمانوں کی مدد کا بیڑا اُٹھایا، اور سب سے پہلے اُن متاثرین کی مدد کیلئے ملت ریلیف فنڈ سے 10لاکھ روپئے جاری کئے اور اس رقم کو ندوۃ العلماء کے حوالے کیا گیا۔ اس طرح متاثرین فسادات میں ابتدائی مرحلہ کی امداد کی تقسیم عمل میں آئی۔ دوسرے مرحلہ کے تحت ’سیاست‘ نے مظفر نگر فسادات کے متاثرین کے بچوں کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے اور ان میں زندگی کا ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں مایوسی کی تاریکیوں میں بھٹکنے سے بچانے کیلئے تعلیم کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا، اور اس ضمن میں حیدرآباد ملت پبلک اسکول کے نام سے دو اسکولس قائم کئے گئے جہاں جملہ 313 لڑکے، لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں جن کی عمریں12اور 13سال کے درمیان ہیں۔
ان اسکولوں کے علاوہ بالغ مرد و خواتین کو روزگار سے جوڑنے کیلئے ووکیشنل کورس بھی شروع کیا گیا جبکہ ایک کمپیوٹر سنٹر بھی قائم کیا گیا ہے، جس کے نتیجہ میں اس علاقہ میں جہاں مسلمان تعلیم سے کوسوں دور تھے علم کی روشنی پھیلنے لگی ہے، اور اس روشنی میں انھیں ہنستے مُسکراتے معصوم چہرے نظر آرہے ہیں۔ مظفر نگر فسادات سے متاثرہ خاندانوں کے بچوں کیلئے تعلیم کی فراہمی، کمپیوٹر سنٹرس، ووکیشنل کورس جیسے اقدامات میں ’سیاست‘ کو فیض عام ٹرسٹ کا مکمل تعاون و اشتراک حاصل ہے۔ جناب زاہد علی خاں بطور خاص ان متاثرین اور ان کے بچوں سے ملاقات کیلئے مظفر نگر گئے ہوئے تھے، انہوں نے واپسی پر بتایا کہ مظفر نگر میں مسلمان تعلیمی شعبہ میں انتہائی پسماندہ ہیں چونکہ روز نامہ ’سیاست‘ تعلیمی پسماندگی کو ہی مسلمانوں کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتا ہے، اس لئے وہاں ’سیاست ملت فنڈ ‘ کی جانب سے اسکولس قائم کئے گئے۔ ان اسکولوں کے تئیں بچوں اور ان کے سرپرستوں میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ جناب زاہد علی خاں کے مطابق مظفر نگر اور اطراف واکناف کے مسلمانوں کا یہی تاثر ہے کہ آئندہ دس، پندرہ برسوں میں اس علاقہ کے مسلمانوں میں تعلیم کا دور دورہ ہوگا اور یہاں کے بچے تعلیم یافتہ نظر آئیں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مقامی لوگ اسکولس، کمپیوٹر سنٹرس اور بالغ مرد و خواتین کیلئے فنی تربیت کے مراکز کھولے جانے پر بہت خوش ہیں۔ ان کا کہناہے کہ مظفر نگر کے مسلمانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش لکھنؤ کی بجائے 2000 کیلو میٹر دور واقع حیدرآباد سے ہورہی ہیں جس کے لئے وہ روز نامہ ’سیاست‘ اور حیدرآبادی مسلمانوں کے جذبہ اخوت کو سلام کرتے ہیں۔ جناب زاہد علی خاں کے مطابق بچوں میں حصولِ علم کا اس قدر شوق ہے کہ وہاں ’سیاست‘ کے اسکولس اتوار کو بھی کام کرتے ہیں جبکہ انھوں نے خود حاضری کا رجسٹر دیکھا تو حیرت میں رہ گئے کہ تمام طلبہ کی حاضری صد فیصد رہی۔ مظفر نگر میں ’سیاست‘ کے ساتھ ساتھ فیض عام ٹرسٹ بھی فلاحی خدمات انجام دے رہا ہے۔
جناب زاہد علی خاں اور منیجنگ ایڈیٹر’سیاست‘ جناب ظہیر الدین علی خاں کے ہمراہ فیض عام ٹرسٹ کے سکریٹری و ٹرسٹی جناب افتخار حسین اور جناب رضوان حیدر ٹرسٹی نے بھی مظفر نگر کے ان اسکولوں، کمپیوٹر سنٹر اور ووکیشنل کورسیس کے مرکز کا معائنہ کیا اور بچوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ روز نامہ ’سیاست‘ اور جناب زاہد علی خاں نے متاثرین کی مدد کا جو بیڑا اُٹھایا اس سے فیض عام ٹرسٹ کو بھی ان مظلومین کی مدد کا حوصلہ ملا۔ ویسے بھی فیض عام ٹرسٹ کمیونٹی خدمات میں مصروف ادارہ ہے جو زیادہ تر اسکولی تعلیم، صحت، انسدادِ غربت اور بازآبادکاری کے کاموں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ حیدرآباد کے شاہین نگر، بالاپور میں برما کے پریشان حال اور لُٹے پِٹے مسلمانوں کے کیمپوں کے قیام میں اس نے اہم رول ادا کیا ہے۔جناب افتخار حسین صاحب نے مزید بتایا کہ مظفر نگر فسادات متاثرین کی مدد کرتے ہوئے فیض عام ٹرسٹ کے تمام عہدہ دار خود کو انتہائی خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ایسے نیک کام کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے منتخبہ بندوں میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا ہے جس کے لئے بارگاہ ِرب العزت میں جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھنا بہت بڑا کام ہے۔ ایڈیٹر ’سیاست‘ نے ان مصیبت زدگان کی مدد کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کی مسلم تنظیموں کو ایک اچھا پیام دیا ہے۔ جناب افتخار حسین کے مطابق وہاں اساتذہ کی حوصلہ افزائی کیلئے فی کس 2500 روپئے ان میں تقسیم کئے گئے، اسی طرح 313 بچوں میں فی کس 500روپئے کی تقسیم بھی عمل میں آئی۔ اسی طرح تمام طلبہ کو جن میں 60فیصد لڑکیاں ہیں انھیں اسکول یونیفارم،جوتے اور کتب فراہم کئے گئے ہیں۔ منیجنگ ایڈیٹر’سیاست‘ جناب ظہیر الدین علی خاں کے مطابق ضلع فیروز نگر کے بھگونا گاؤں میں 3700مسلمان ہیں جو تعلیمی اعتبار سے بہت پسماندہ ہیں، اس گاؤں میں صرف 3گریجویٹس ہیں اور 13نوجوان ایسے ہیں جو انٹر میڈیا یا گریجویشن کررہے ہیں۔ فسادات میں فرقہ پرست درندوں نے اس گاؤں میں 5 مسلمانوں کو بڑے بیدردانہ اندازمیں شہید کیا جبکہ ان وحشیوں نے 14 خواتین و لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ ان سنگین جرائم کے الزام میں صرف دو گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ اس کے برعکس تمام درندے آزاد پھر رہے ہیں۔ بھگونا گاؤں کے ان مصیبت زدہ بھائیوں کو ’’ جوگیا کھیرا ‘ نامی ایک مسلم گاؤں کے مسلمانوں نے پناہ دی ہے۔ ان کے جذبہ اخوت اسلامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ان لوگوں نے اپنے متاثرہ مسلم بھائیوں کے خاندانوں کو اپنے گھروں میں بسا لیا ہے۔
جوگیا کھیرا کے مسلمان اپنے گھروں کے نصف حصہ میں مصیبت زدہ مسلمانوں کو ٹہرا رہے ہیں۔ ہندوستان میں اس طرح کا جذبہ اخوت ہمیں صرف جوگیا کھیرا میں نظر آیا۔ جوگیا کھیرا کے اسکول میں 313 لڑکے، لڑکیاں ہیں ان میں16لڑکے، لڑکیاں دوسری جماعت میں اور تین تیسری اور پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ بقیہ تمام طلبہ پری پرائمری کلاسیس میں زیر تعلیم ہیں۔ 12تا13سال عمر کے یہ بچے الف، ب اور Aسے تک واقف نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کمپیوٹر سنٹر میں 8کمپیوٹرس رکھے گئے ہیں جہاں 26 نوجوانوں کو تعلیم دی جارہی ہے۔ جناب ظہیر الدین علی خاں کے مطابق اساتذہ کی کارکردگی غیر معمولی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے ان مسلمانوں کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے جو ادارے قائم کئے گئے ہیں ان کی نگرانی دہلی پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں شامل متعصب عہدیداروں کے ہاتھوں ستائے ہوئے محمد عامر کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان بناء کسی قصور کے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں 14برسوں تک جیل میں قید کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دَمام سے آئے ایک صاحب خیر نے مظفر نگر متاثرین کی مدد کیلئے 1.65 لاکھ روپئے بطور امداد پیش کی، اور اُمید ہے کہ ’ سیاست‘ اور فیض عام ٹرسٹ مظفر نگر کے مسلمانوں میں علم کی روشنی پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔