قاہرہ۔مصر کی سپریم کونسل برائے میڈیا ریگولیشن نے قدیم دانش گاہ جامعہ الازہر کے مجاز علماء اور اسکالروں کی ایک فہرست نیوز کانفرنس کے دوران جاری کی ہے‘ اب صر ف ان علماء ہی مصرٹی وی چینلوں پر فتاوی جاری کرنے کا اختیار ہوگا۔کونسل کے مطابق اس اقدام کا مقصد غیرتعلیم یافتہ مبلغین کے بے بنیاد‘ فتاوی کی روک تھام ہے۔یہ مبلغین ٹی وی چیانلوں کے پروگرام میں نمودار ہوکر مضحکہ خیز فتاویٰ جاری کرتے رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ ستمبر میں ڈاکٹر صابری عبدالرؤف کے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران جاری کردہ فتویٰ سے کیاجاسکتا ہے۔
انہو ں نے یہ فتوی دیاتھا کہ خاوند اپنی مردہ بیوی سے ہم بستری کرسکتا ہے۔ سپریم کونسل برائے میڈیا ریگولیشن میڈیا ذرائع کے مواد کی پیشہ وارانہ اور اخلاقی سطح پر نگرانی کی ذمہ دارہے۔اس نے دھمکی دی کہ فتووں کے مجاز علما کی فراہم کردہ فہرست کی پاسداری نہ کرن یوالے ٹی وی چینلوں اور میزبانوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔ جونسل کے اس فیصلے پربیشتر مصریوں نے چین کی سانس لیا ہے کیونکہ وہ ایک عرصہ سے مضحکہ خیز اور دین کا مذاق اڑانے والے فتاوی کی روک تھام کا مطالبہ کرتے چلے آرہے تھے ‘ تاہم انہ وں نے فہرست میں شامل ناموں پر حیرت کا اظہار بھی کیا ہے کیونکہ ان میں ان نامور علما کے نام شامل نہیں ہیں جوائے دن ٹیلی ویثرن چینلوں پر نمودار ہوتے رہتے ہیں۔
چنانچہ انہو ں نے فہرست میں شامل علما کی اہلیت کے معیار بھی سوال اٹھائے ہیں کہ ان کا انتخاب کس بنیاد پر کیاگیا ہے۔ مصر کے سینئر صحافی او رسپریم کونسل برائے میڈیاریگولیشن کے چیرمن مکرم محمد احمد نے نیوز کانفرنس میں کہاہے کہ علماک کی فہرست مرتب کرنے کا فیصلہ اکتوبر میں قائرہ میں منعقدہ بین الاقوام افتا کانفرنس کی سفارشات کی روشنی میں کیاگیا ہے۔
ان سفارشات میں فتوی جاری کرنے کے قواعد وضوابط بھی شامل ہیں تاکہ اس بات کویقینی بنایاجاسکے کہ یہ فتوے ٹھوس علمیت اور دانش پر مبنی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ جامعہ الازہر اور مفتی اعظم مصر کے ساتھ بات چیت کے بعد قابل اعتماد مفتیان کرام او رعلما کے ساتھ فہرست مرتب کی گئی ہے اور وہی اب میڈیا میں فتوے جاری کرنے کے مجاز ہیں۔
البتہ انہو ں نے وضاحت کی ہے کہ تمام علماء او رمذہبی دانشواروں کو مختلف مذہبی مسائل پر میڈیا میں گفتگو کی اجازت ہے لیکن فتوے صرف فہرست میں شامل پچاس علماء ہی دے سکیں گے۔ انہو ں نے ٹی وی چیانلوں پر نمودار ہونے والے علما کو ہدایت کی ہے کہ وہ گفتگو میں معتدل اور شائستہ انداز اختیار کریں‘ مذہبی شعار کی توہین یاتشد کی تبلیغ کے مرتکب نہ ہوں ۔
ان اصول وضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکبین کو کونسل کے قوانین کے مطابق سزا دی جائے گی۔کونسل کی جاری کردہ فہرست پر ان علما او راسکالروں نے مایوسی کا اظہار کیاہے جس میں ان کے نام شامل نہیں ہیں۔ان میں جامعہ الازہر کی تقابل فقہ کی پروفیسر سواد صالح بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہاکہ ’میرے پاس فقہ کی اعلی ترین ڈگری ہے اور اس کی بدولت میں تمام مکاتب فکر کے جائزے کے بعد کسی مناسب فتوی تک پہنچنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔میں کئی کتب کے مصنفہ ہوں او رگذشتہ 30سال سے فتاوی جاری کررہی ہوں۔
تمام ٹی وی چینلز مجھے مہمان عالمہ کے طور پر بلاتے رہتے ہیں۔ان کا کہناہے کہ اس فہرست میں صرف ایک خاتون عالمہ کانام شامل ہے۔ یہ مذہبی معاملات میں خواتین کے کردار کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے حالانکہ خواتین کو خود کو درپیش مسائل کے بارے میں مردو ں کے بجائے خواتین سے پوچھنے ہی میں عافیت محسوس کرتی ہے ۔ اب خواتین کومجبور کیاجارہا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ علما کے بجائے اپنے گھروں کے نزدیک واقع مساجد میں علما سے مذہبی مسائل کی پوچھ گچھ کے لئے رجوع کریں