اسلام کا نظام حیات فطری ہے ،سلیم الفطرت انسان کیلئے اس میں راحت وتسکین کا سامان ہے،ہرانسان فطری طورپرتسکین خاطر کیلئے ایک ساتھی اوررفیق زندگی کا محتاج ہے۔اس لئے اسلام نے مردوعورت دونوں پیدافرمائے ہیں جوایک دوسرے کی فطری ضرورت بنائے گئے ہیں،جب سے دنیا قائم ہے مردوعورت کے درمیان نکاح وشادی کا رواج بھی قائم ہے جس سے معاشرہ میں پاکیزگی برقرار ر ہتی ہے،نکاح کی بدولت گھریلووخاندانی زندگی امن وآمان کی فضاء میں بسرہوتی ہے،خاندانی زندگی کی تشکیل کے ساتھ ایک دوسرے کے احترام، انسانی اخلاق وکردارپر مبنی انسانیت کا اعلی ماحول بنتاہے ،لیکن افسوس مذہب اورسماج کی اس پابندی کومغربی تہذیب نے پامال کرکے عفت وعصمت کی اعلی قدروں کومجروح کیاہے، قیدنکاح کو خواہ ایک ہو یا زائد (چارسے کم )ہو انسانی آزادی کے مغائرقراردیا جس سے جنسی انارکی خوب پھیلی ،حیاء وشرم کی جگہ بے حیائی وبے شرمی نے لے لی،پھرکیا تھامعاشرہ کی پاکیزگی دائو پر لگ گئی،مغرب کی اس غیر فطری حیاء سوز آزادی نے کنواری مائوں کی تعدادمیں اضافہ کیاہے جسکی وجہ باپ کی نسبت کے بغیرپیداہونے والے ناجائزبچوں کی بڑھتی تعدادکا ایک بوجھ انسانی سماج جھیل رہاہے۔مغرب جس غیر فطری حیاء باختہ آزادی کی وجہ آج پریشان ہے اوراپنی اس بیہودگی پرخون کے آنسورورہاہے وہیں یہ بلاء ومصیبت اوراورمغربی افکارونظریات کے ساتھ مشرق کوپراگندہ کررہی ہے،اس غیر فطری بلکہ غیرانسانی وغیر اخلاقی فکرسے پڑھے لکھے ،لائق فائق جو خیر سے دانشورکہلاتے ہیں اس حد تک متاثرہیں کہ ان کی نظر میں مردوعورت آزادہیں وہ اگرنکاح کے بغیرآپسی رضامندی سے صنفی تعلق قائم رکھنا چاہیں تو ان کوپوری طرح آزادی حاصل ہے۔چنانچہ ہندوستان جیسے مشرقی تہذیب کے گہوارہ میں لڑکی جب ۱۸؍سال کی اورلڑکا ۲۱؍سال کا ہوجائے تووہ قانون کی رو سے بالغ متصورہوتے ہیںاور ان کا رضامندی کے ساتھ صنفی تعلق قانونا جائزقرارپاتاہے،اب یہ تعلق خواہ وقتی ہویا دائمی اس پرکوئی نکیر نہیں،اگرکوئی پابندمذہب جوفطری طورپربالغ ہوچکاہوجیسے کسی لڑکی یا لڑکے میں علامات بلوغ ظاہرہوگئے ہوں فطرۃ بالغ ہیں اسلام ان کوبالغین کی فہرست میں شامل کرکے اسلامی احکام کی پابندی کا مکلف گردانتاہے۔دیگراورمذاہب کے ماننے والوں کی نظر میں بھی وہ بالغ ہی مانے جاتے ہیں،اسلام اوردیگرمذاہب کی تعلیمات کی روشنی میں ان کویا انکے والدین یا سرپرستوں کو ان کا نکاح کرنے کی اجازت ہے اورملکی قانون کوبھی اس میں مزاحم نہیں ہونا چاہیئے۔اسلام نے ایسے نکاح کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ حوصلہ افزائی کی ہے، اس طرح کے جائزنکاح کوملکی قانون کی حمایت بھی حاصل ہونی چاہیئے،لیکن افسوس ملکی قانون کی روسے قابل دست اندازی جرم ہے، ہندوستان کئی ایک مذاہب کا گلدستہ ہے اورہر مذہب انسانی ،اخلاقی وسماجی روایات کا پاسدارہے،لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسے ملک میں قانونا بالغ مردوعورت کو نہ صرف زنا کی اجازت ہے بلکہ ہم جنسی جیسے مذہبی،اخلاق،سماجی ،انسانی اورفطری اعتبارسے سخت کریہہ،نہایت مذموم گھنائونے فعل بد کو بھی حکومت وقانون کی سرپرستی حاصل ہے ،جبکہ کوئی مذہب اور سنجیدہ ،شریف انسانی سماج اس کی ہر گزاجازت نہیں دے سکتا،لیکن نکاح کے ذریعہ جائزصنفی تعلق قائم رکھنے میں کئی ایک قانونی موانع ہیں ،جیسے ایک مردوعورت کے واسطے مذہبی اعتبارسے نکاح کا حصار عفت وعصمت کی حفاظت ،سماج کی پاکیزگی کیلئے ضروری ہے اسی طرح مردوں کیلئے بسااوقات ایک سے زائدنکاح ضروری ہوجاتاہے۔چونکہ مردکی طبعی کیفیت اورعورت کی طبعی کیفیت میں فطری طورپرنمایاں فرق رکھا گیاہے، اس فرق کو جدید وقدیم ماہرین نفسیات واطباء نے تسلیم کیاہے، فطری طورپرجن احوال سے ایک عورت گزرتی ہے جیسے ہرماہ حیض کا دورانیہ ،استقرار حمل کی تدریجی درازمدت،وضع حمل اوراس کے بعدنفاس کا سلسلہ پھر نومولودکی مدت رضاعت اوراسکی تربیت وغیرہ کی فطری راحت بخش مشغولیت جواس کوبڑی حد تک صنفی تعلق سے بے نیاز رکھتی ہے۔
یہ اور ان جیسے بہت سے مراحل ہیں جن میں کچھ صورتوں میں صنفی تعلق اسلام میں جائزنہیںاورسائنسی تحقیقات بھی اسکی تصدیق کرتی ہیں چونکہ حیض ونفاس کے دوران صنفی تعلق کا قیام جسمانی امراض میں مبتلاء کرسکتاہے۔سلیم الفطرت انسانوں کامزاج طبعا اس کو پسند نہیں کرتا اوران میں بعض صورتیں وہ ہیں جیسے حمل، وضع حمل اور رضاعت کا زمانہ ان میں بھی بسااوقات صنفی تعلق کا قیام نقصان کا باعث ہوسکتاہے۔ علاوہ ازیں سماج کے بعض حصوں میں مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی شرح پیدائش میں اضافہ ایک مسلّمہ امر ہے ،نیززمانہ قدیم سے بین ممالک جنگوں کا سلسلہ جاری ہے،سائنسی ایجادات وترقیات نے آلات جنگ کواورزیادہ مہلک بنادیاہے، جنگوں کے مہلک اثرات سے ہنستی کھیلتی آبادیاں اجڑرہی ہیں ،خوں آشام جنگوں نے کرئہ ارض سے چین وسکون چھین لیاہے۔عام طورپرمیدان جنگ میںہزاروں کی تعدادمیں مرد ہی کام آتے ہیں ،ان کی بیوائیں بے یارومددگارہوجا تی ہیں،ان جیسے احوال کا حل تعددازواج میں رکھا گیا ہے۔ورنہ جہاں قانون میں تعددازواج منع ہوگا وہاں غیر قانونی داشتائوں کی کثرت ہوگی ۔کھلے چھپے زنا عام ہوگا ،اورمعاشرہ کی پاکیزگی برقرارنہیں رہ سکے گی،چہ جا ئیکہ تعددازواج کی ممانعت کے ساتھ زنا کاری کوقانون کی حمایت حاصل ہوجائے اوراس فعل شنیع کی قباحت کونظراندازکردیا جائے اس پرجتنا ماتم کیا جائے کم ہے،ایسے سماج ومعاشرہ کے اخلاقی فسادوبگاڑکا تو کچھ اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ الامان والحفیظ۔ تعددازواج کا صرف اسلام ہی حامی نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے ہر طرح کے ترقی یافتہ وغیر ترقی یافتہ سماج میں اسکا رواج رہاہے، قدیم آسمانی مقدس کتابوں میں اس کا ذکرملتاہے،بڑے بڑے فلاسفراورحکماء نے اس کی سماجی ضرورت کوتسلیم کیا ہے۔یہاں تک کہ قدیم ہندومذہبی روایات سے بھی اسکا ثبوت ملتاہے، چنانچہ کرشن جی جوغیرمسلم طبقہ میں قابل احترام سجھے جاتے ہیں اوران کوایک اوتارکا درجہ حاصل ہے ان کی بھی لاتعدادبیویاں تھیں۔جس غیر انسانی اورغیر اخلاقی ماحول میں سیدنا محمدرسول اللہ ﷺکی بعثت مبارکہ ہوئی اوران پراللہ کا کلام قرآن مجیدنازل ہوا اورجوتعلیمات وہدایات قرآن مجیداوراسکی آیات کی تبیین یعنی احادیث پاک سے ساری انسانیت کودی گئی ہیں وہ توساری انسانیت کیلئے باعث رحمت ہیں ،اسلام کی آمدسے قبل انسانی معاشرہ بڑی بے راہ روی کا شکارتھا،عورتوں سے کسی تعداد کی تحدید کے بغیر نکاح کا سلسلہ جاری تھا،خاص طورپریتیم بچیاں جن کی سرپرستی میں ہوتیں وہ خود یا اپنی اولاد سے ان کے مال وجمال کے وجہ نکاح کا رشتہ قائم کرلیتے،ان پرظلم ڈھاتے اوران کے حقوق غصب کرتے،قرآن پاک کی سورہ نساء آیات ۲تا۶ میں یتامیٰ اوران کے حقوق اوران کے مال وناموس کی حفاظت کیلئے خصوصی احکامات دئیے گئے ہیں۔اسی ضمن میں ایک سے زائدچارعورتوں کی حدتک نکاح کی اجازت کا ذکر ہے اوریہ اجازت بھی ازواج کے درمیان عدل وانصاف کی شرط کے ساتھ مشروط رکھی گئی ہے۔اورجومرداس شرط کو پورا نہیں کرسکتے ان کوایک ہی بیوی پراکتفاء کرنے کی ہدایت دی گئی ہے(النسائ:۳)بعض غیر سنجیدہ ناقدین اسلام میں کثرت ازواج یعنی ایک سے زائدچارتک عورتوں سے نکاح کے جواز پرمعاندانہ اعتراض کرتے ہیں،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے چارکی تحدیدعائدکرکے دورجاہلیت میں خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بیخ کنی کی ہے ۔ طلاق ثلاثہ کوہدف بنانے کے بعداب کثرت ازدواج کوغیر قانونی قراردینے کی تیاریاں کی جارہی ہیں،واقعہ یہ ہے کہ مسلمانو ںکی بیس تا پچیس کروڑکی آبادی میں تعددازواج کے واقعات اتنے کم ہیں کہ اس کونادرمانا جاسکتاہے،اسکے باوجودحکومت وعدلیہ ایک خالص فطری ومذہبی جواز کو موضوع بحث بنائیں اوراس کے خلاف قانون سازی پرغورکریں توغالبؔ کی زبان میں یہی کہا جاسکتاہے ۔
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگرکو میں
مقدورہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گرکو میں
ملک اوررعایہ کی بھلائی مقصودہو تومذہبی روایات اورخاص طورپر اسلام کے عائلی مسائل سے کوئی چھیڑچھاڑکئے بغیرمجموعی حیثیت سے ملک اوررعایا کی ترقی کے اہداف حکومت وقانون کا نصب العین ہونا چاہیئے۔فطرۃًبالغ لڑکا یا لڑکی کا جائزایک یا زائد(چار تک)نکاح سرے سے کوئی ایسا سماجی مسئلہ ہے ہی نہیں جس پرحکومت اورعدلیہ اپنی توانائیاں صرف کریں، معاشرہ کی پاکیزگی اوربھلائی مقصودہوتو قانونا بالغ مردوعورت کورضامندی کی شرط کے ساتھ دی گئی زنا کی اجازت اورہم جنسی کی حوصلہ افزائی کے قانون پرضرورروک لگنی چاہئے،حکومت اورعدلیہ اس کوہدف بناتے ہیں تو ضرور اس میں ملک کی نیک نامی ترقی کی ضمانت کے ساتھ انسانی سماج کی پاکیزگی کا رازمضمرہے۔