مسلم پرسنل لا بورڈ کااجلاس

یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرمادے جو روح کو تڑپا دے
مسلم پرسنل لا بورڈ کااجلاس
ہندوستانی مسلمانوں کا پہلا دینی و دنیوی رہبر اگر مسلم پرسنل لا بورڈ ہے تو یہ ادارہ کافی حد تک خودمختار اور مضبوط ہے لیکن یہ اس طرح خودمختار نہیں کہ اپنے بنائے گئے اصول اور ضوابط کے ساتھ مسلمانوں کی موثر رہنمائی کرسکے خاص کر جب ملک میں فرقہ پرستوں کی زیرقیادت حکومت ہو اور ان کی نمائندگی کرنے والے مسلمانوں میں نریندر مودی حامی لوگ ہوں ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے حالیہ اجلاس میں ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ حالات اور فرقہ پرستوں کے عزائم کے تناظر میں جو سچائی بیان کی گئی ہے وہ حق بجانب ہے ۔ ملک پر فاشسٹ طاقتوں نے اپنی اجارہ داری شروع کی ہے تو ایسے میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے اس کا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پاس کوئی لائحہ عمل اور سیاسی قوت نہ ہونے کے باوجود اس نے ہندوستانی مسلمانوں کے سماجی ، دینی اور قومی جذبات کو متوازن طورپر رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ مسلم نوجوانوں کو اشتعال دلانے والی طاقتیں اپنا اثر دکھارہی ہیں ایسے میں مسلم پرسنل لا نے اجلاس کی حد تک ہی مسلم نوجوانوں کو مشتعل نہ ہونے کا مشورہ دیا جبکہ ملک کے کونے کونے میں خاص ان مقامات پر جہاں مسلمانوں کی آبادی اکثریت کے سامنے نہیں کے برابر ہوتی ہے ان مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے بورڈ نے کوئی جامع منصوبہ پیش نہیں کیا ہے ۔ ہربار کی طرح اس مرتبہ بھی مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس سمجھدارانہ اور دانشورانہ سوچ کے ساتھ اختتام کو پہونچا مگر فرقہ پرستوں کی تیز آندھی کو روکنے کیلئے اجلاس میں شریک افراد کی تجاویز کو موثر نہیں بنایا گیا تو پھر فرقہ پرستوں کے کام آسان ہوجائیں گے اور ایسے میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی کریڈیلٹی ایک سوالیہ نشانہ بن جائے گی ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو ملک کے تمام مسلمانوں کی جانب سے بھرپور حمایت ہونی چاہئے اور دوسری بات یہ بورڈ جب تک اپنے طورپر دینی ، سماجی ، سیاسی اور معاشرتی سطح پر مضبوط نہیں ہوتا ، ہندوستانی مسلمانوں کو فرقہ پرستوں کی زد میں ہونے کا خطرہ برقرار رہے گا ۔ ہندوستان میں مسلم سیاسی قائدین بھی ہیں جو منتشر ہیں ۔ مسلمانوں کا پہلا ستون اگر مسلم پرسنل لا بورڈ ہے تو دوسرا ستون سیاسی قیادت ہونی چاہئے تھی جس کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ اگر سیاسی قیادت ہے تو وہ کارکردگی کے لحاظ سے بہت ہی کمزور اور ناکام ہے ۔ چند مسلم قائدین حکومت کے تلوے چاٹتے ہیں تو یہ لوگ مسلمانوں کا بھلا نہیں کرسکتے ۔ مودی حکومت میں اگر چند مسلم قائدین یا نام نہاد لوگ ہیں تو ان کے اندر ہی نیتوں کا اصل مقصد موافق سیاسی آقا ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کی سورۃ حج میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جھوٹی بات سے بہرصورت بچو اور ایک جگہ فرمایا کہ مومنین جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ لیکن ہندوستان میں مسلم نمائندگی کرنے والوں خاص کر حکمرانوں کے قریب رہنے والوں نے جھوٹ کا سہارا لے کر وقتی طورپر اپنا فائدہ اُٹھایا اور دیرینہ یا طویل مدتی طورپر مسلمانوں کو سیاسی ، معاشرتی اور سماجی خسارہ میں ڈالدیا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے ساتھ سیاسی نمائندہ مسلم شخصیتوں نے کن کن موقعوں پر زد پہونچائی ہے ۔ تاہم مسلم پرسنل لا بورڈ کی بنیاد جس نیک نیتی سے رکھی گئی تھی اس پر کوئی آنچ اس لئے نہیں آسکی کیوں کہ یہ بورڈ نیک بخت مسلمانوں کی محنت شاقہ اور دعاؤں و نیک ارادوں کے ساتھ بنایا گیا مرکز مانا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کی دینی رہبری اور رہنمائی کے ساتھ سیاسی طاقت کے لئے ایک موثر و مضبوط ادارہ کی حیثیت سے مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے جئے پور اجلاس میں مسلمانوں کو اپنے عقیدہ پر مضبوطی سے قائم اور باہم متحد رہنے کی تلقین کی ۔ گھر واپسی پروگرام کو ناکام بنانے کے لئے اکثر گاؤں ، دیہات میں مسلمانوں کے ان کے عقائد اور ایمان پر قائم رکھنے کیلئے موثر مہم چلانے و تبلیغ کی ضرورت ہے ۔ فرقہ پرستوں کا دیرینہ منصوبہ یہی ہے کہ ہندوستان میں مذہب کی آڑ میں نفرت پیدا کرکے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو ضرب پہونچائی جائے ، انھیں تیسرے درجہ کا شہری بنایا جائے ۔ گیتا ، سوریہ نمسکار اور وندے ماترم جیسے حربوں کے ذریعہ مسلمانوں کو تنگ کرنا ان کی عادت بن گئی ہے ۔ اس طرح کے حربوں کو ناکام بنانے کے لئے خود مسلم پرسنل لا بورڈ کو حرکت میں آنا ہوگا۔ مسلم نوجوان ہرممکنہ طورپر تشدد سے دور رہتے ہیں لیکن فرقہ پرستوں نے بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے کیس میں پھانسنے کے لئے قانونی اختیارات کا اندھا دھند استعمال کیا ہے تو ا س طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے مسلم پرسنل لا بورڈ ایک موثر قانونی رہبری رکھنے والی طاقت پیدا کرسکتا ہے ۔ مسلمانوں کو بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی خرابیوں کو ختم کرنے کیلئے کچھ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں۔ مودی حکومت میں فرقہ پرستوں کے اقتدار کے نظام بد کو اپنی تقدیر سمجھ لیا گیا تو پھر حالات سے اکتفا یا سمجھوتہ ہی ان کی زندگی کا غالب فلسفہ ٹہرجائے گا ۔