مسلم پرسنل لا بورڈ کااجلاس

ملت کی آبرو ہے دلوں کی اُمید ہے
یہ آنے والی صبح کی روشن تمہید ہے
مسلم پرسنل لا بورڈ کااجلاس
مرکزی حکومت نے مسلمانوں میں 3 طلاق کے رواج کو غیر قانونی اور غیر ضمانتی جرم قرار دینے والا نیا بل لوک سبھا میں پیش کرکے اپنی دیرینہ کوشش کو کامیاب بنانا چاہا ہے۔ اس بل کی مخالفت کرنے کی ذمہ داری اب اپوزیشن پر پہلے سے زیادہ دوگنی ہوگئی ہے۔ مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت اپنی پالیسیوں کو ہندوتوا نظریہ کے تابع بناکر ہندوستانی مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کررہی ہے۔ بل کی مخالفت کرنے اور بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے حالیہ اجلاس میں یہ واضح کردیا کہ بورڈاس بل پر حکومت کو من مانی کرنے نہیں دے گا۔ رام مندر کے مسئلہ پر بھی پرسنل لا بورڈنے آرڈیننس لانے کی مخالفت کی اور حکومت کے اس اقدام کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے اجلاس میں یہ بات شدت سے نوٹ کی ہے کہ ملک میں سیکولرمزاج کا حامل طبقہ بھی موجود ہے جس کی مدد سے موجودہ حکومت کی من مانی کو روکا جاسکتا ہے۔ بلاشہ ہندوستانی عوام کی اکثریت سیکولر مزاج کی حامل ہے جب تک یہ سیکولر ہندوستان متحد ہے، غیر سیکولر اور غیر جمہوری پالیسیوں کو ہرگز کارگر ہونے نہیں دیا جانا چاہیئے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے پارلیمنٹ میں سیکولر اپوزیشن پر زور دیا کہ وہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے مودی حکومت کے 3 طلاق بل کو ناکام بنائیں۔ لوک سبھا میں پیش کردہ 3 طلاق بل کے کچھ حصوں میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ یہ بل دراصل28ڈسمبر2017 کو لوک سبھا میں منظور ہوا تھا۔ اپوزیشن نے شدت سے مخالفت کرتے ہوئے بل میں شامل بعض نقائص پر توجہ دلائی تھی جس کے نتیجہ میں بل کو راجیہ سبھا میں زیر التواء رکھا گیا۔ حکومت نے اس بل کو منظور کروانے میں حد سے زیادہ دلچسپی دکھائی ہے اور اس نے آرڈیننس بھی جاری کردیا ہے۔ حکومت کا ادعا ہے کہ یہ بل مسلم خواتین کے حقوق کی حفاظت کیلئے لایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جب سے 3 طلاق کی روایت کو غیر آئینی قرار دیا ہے اس کے بعد سے حکومت بلاخوف اس پر عمل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ حالانکہ یہ عمل مسلم پرسنل میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اس خصوص میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کوبھی قومی سطح پر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ بورڈ کے اجلاس میں اگرچیکہ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں شرعی قوانین سے متعلق بیداری پیدا کرتے ہوئے 3 طلاق بل کے خلاف رائے عامہ کو متحرک کیا جائے گا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس میں دیگر کئی اُمور پر غور و خوض کرتے ہوئے موجودہ حالات میں بورڈ کی ذمہ داریوں کا جائزہ لیا گیا ہے جو بروقت حرکت میں آنے کی جانب بہتر قدم ہے۔جہاں تک رم مندر کے مسئلہ پر آرڈیننس لانے حکومت پر ہندوتوا تنظیموں کے دباؤ کا سوال ہے یہ مسئلہ صرف سیاسی اور انتخابی عنوان تک ہی محدود دکھائی دیتا ہے۔ مرکز کی حکمراں پارٹی بی جے پی کو اپنی پالیسیوں کی سزا ملنی شروع ہوچکی ہے اور حالیہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا بری طرح صفایا ہوا ہے۔ اس کی نفرت پر مبنی پالیسیوں اور رام مندر مسئلہ کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کی بات عام ہندوؤں میں عام ہوتی جارہی ہے۔ اس لئے اب ملک کا ہر باشعور شہری رام مندر کے مسئلہ پر بی جے پی حکومت کے جھانسے میں آنا نہیں چاہتا۔ عام ہندو شہری کو روزگار اور سکون کی ضرورت ہے اور بی جے پی بنیادی دونوں چیزیں فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا نظریہ درست ہے کہ ملک کے سیکولر مزاج کے حامل ہندوؤں کوقریب کئے جانے یا ان کے قریب ہوکر مخالف سیکولر زم طاقتوں کاصفایا کیا جائے۔ حالیہ اسمبلی انتخابا ت میں اس صفایا کا آغاز ہوا ہے تو اب پہلے سے زیادہ منظم طریقہ سے مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کو سرگرم ہوکر ہندو سیکولر شہریوں کے ساتھ کام کرنا چاہیئے۔