مسلم نوجوان کے ہاتھوں (۱۴) ارکان خاندان کا بہیمانہ قتل

اس ہفتہ مہاراشٹر کے ضلع تھانے میں قیامت خیز واقعہ رونما ہوا ، جس نے انسانیت کی ساری حدیں پار کردیں ، درندگی ، سفاکی ، بہیمیت اور حیوانیت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ ایک شخص نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بوڑھے ماں باپ کا گلہ کاٹ دیا ،اپنی بیوی ، بچوں کو جانوروں کی طرح ذبح کردیا ، بہنوں اور ان کی اولاد کے حلق پر چاقو چلاکر موت کی نیند سلادیا ۔ وہ کیسا درندہ صفت انسان ہوگا جس نے اپنی تین ماہ کی شیرخوار کو بھی ذبح کیا ۔ حسنین انور واریکر نے ایسی حرکت کی کہ اس نے انسانیت کا سرشرم سے جھکادیا ، یہی وہ درندہ صفت تھی جس کی بابت فرشتوں نے دربار الٰہی میں عرض کیا تھا : ( اے مولیٰ ) کیا تو زمین میں ایسی مخلوق پیدا کریگا جو فساد برپا کریگی اور خونریزی کریگی درانحالیکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تیری تقدیس بیان کرتے ہیں ( سورۃ البقرۃ ۲؍۳۰) بعض انسانی شکل و صو رت رکھتے ہیں لیکن جو حیوانوں سے بدتر ہوتے ہیں ۔ ارشاد الٰہی ہے تحقیق کہ ہم نے جہنم کے لئے بہت سے جن اور انسان پیدا کئے ہیں ان کے دل تو ہیں ، وہ ان سے سمجھتے نہیں ہیں ، ان کی آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں ہیں ، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ہیں ، وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے جانور بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ، وہی لوگ ہیں جوکہ غافل ہیں۔ (سورۃ الاعراف ۷؍۱۷۹)
محبت مختلف اسباب کی بناء ہوتی ہے ، کبھی حسن و جمال کی وجہ سے کوئی کسی پر فریفتہ ہوجاتا ہے ، کوئی علم و حکمت کی وجہ سے کسی پر شیدا ہوجاتا ہے ، کوئی مال و دولت ، احسان و حاجت روائی کی وجہ سے چاہنے لگتا ہے لیکن دنیا میں بعض ایسی محبتیں ہیں جس میں سبب ، علت ، معیار ، وجہہ کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا وہ فطری محبت ہے ۔ اولاد کس قدر کالی کلوٹی ، بدشکل کیوں نہ ہو ماں باپ کو ساری دنیا کے بچوں میں پیاری ہوتی ہے ۔ ماں باپ کس قدر غریب ، ضرورتمند ، کمزور ، معذور ، اپاہچ ، لاچار ، عیب دار کیوں نہ ہوں اولاد کے لئے سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ۔ یہ وہ محبت ، درحقیقت خدا کی قدرت کی نشانی ہے ۔ ماں باپ ، بھائی بہنوں اور اولاد میں کتنے اختلافات نہیں ہوتے لیکن خون کا ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ پھر وہ ساری تلخیاں ختم کردیتے ہیں اور خوشی وغم کے موقعہ پر ایک ہوجاتے ہیں ، خونی رشتوں کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے ۔ صلہ رحمی کرنا ، افضل ترین تقربات میں سے ہے اور قطع رحمی ، عزیز و اقارب سے تعلق کو ختم کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔

قرآن مجید میں کتنے ہی مقامات پر ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کے ساتھ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : یاد کیجئے اس وقت کو جب اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا ، والدین ، قریبی رشتہ دار ، یتیم اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور لوگوں سے اچھی گفتگو کرنا ، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا پھر تم ( اس عہد سے ) پھرگئے سوائے چند کے تم تو منھ موڑنے والے ہی ہو ( البقرۃ ۲؍۸۳)
’’یہ نیکی نہیں کہ تم اپنا رُخ مشرق یا مغرب کی جانب کیا کرو بلکہ نیکی یہ ہے کہ جو ایمان لایا اﷲ پر آخرت کے دن پر ، فرشتوں پر ، کتاب پر ، انبیاء پر ، اور اپنی محبت و ضرورت کے باوجود رشتہ دار ، یتیم ، مسکین ، مسافر اور مانگنے والوں کو مال دیا ، نماز قائم کیا ، زکوٰۃ دیا ، اپنے عہد کے پورا کرنے والے جب وہ عہد کریں ، سختی اور تکلیف میں صبر کرنے والے اور لڑائی کے وقت یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں‘‘۔ ( سورۃ البقرۃ ۲؍۱۷۷) ۔ ’’وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ۔ آپ فرمادیجئے جو کچھ تم خرچ کروگے مال میں سے سو ماں باپ کے لئے ، قریبی رشتہ داروں کیلئے ، یتیموں ، مساکین اور مسافرین کے لئے اور جو کچھ بھلائی تم کروگے بے شک اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اس کو خوب جاننے والا ہے ۔ ( سورۃ البقرۃ ۲؍۲۱۵)

سورۃ الانفال میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ مہاجرین اور انصار کے درمیان رشتۂ ایمانی کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’فاولئک منکم ‘‘ ( اے انصار ، مھاجرین تم ہی میں سے ہیں ) مھاجرین پر خرچ کرنے ، ان کی ہرممکنہ مدد کرنے کی تلقین کے فوری بعد قاعدہ کلیہ بیان کردیا : ’’رشتہ دار آپس میں اﷲ تعالیٰ کی کتاب میں زیادہ حقدار ہیں ‘‘( سورۃ الانفال ۸؍۷۵)
سورۃ النساء ۴؍۳۶ میں ارشاد ہے : ’’ اور اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو ، قرابت دار، یتیم ، فقراء ، ہمسایہ رشتہ دار ، ہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والے ، مسافرین اور غلام باندیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو ‘‘ ۔

بالخصوص والدین کا مقام اس قدر بلند کیا کہ ان کے تئیں ادنیٰ سی بے التفاتی ، اُکتاہٹ یا ناپسندیدگی کو گوارا نہیں کیا گیا اور حکم ہوا کہ تم والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو ، وہ دونوں یا ان میں کوئی تمہارے پاس بوڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ’’اُف ‘‘ تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو ، ان سے ادب سے بات کرو ان کے آگے نیاز مندی سے کندھے جھکادیں اور دعا کریں کہ اے رب ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں مجھے پالا … اور تم اپنے قرابت دار کا حق ادا کرو ۔
( سورۃ بنی اسرائیل ۱۷؍۲۵؍۲۶)
جو لوگ رشتہ داروں سے قطع تعلقی کرتے ہیں ان پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے ۔ ( سورۃ محمد ؍۲۳) اور جو اﷲ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں اور رشتہ داروں سے تعلق کو توڑ لیتے ہیں ان کے لئے برا ٹھکانہ ہے (سورۃ الرعد : ۲۵)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ○مروی ہے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا رشتہ داری عرش کو تھامے ہوئے عرض کرتی ہے : اے پروردگار تو اس کو جوڑ دے جو مجھ کو جوڑے اور جو مجھکو توڑے تو اس سے قطع تعلق فرما۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : میں رحمن ہوں ، رحیم ہوں ، میں نے ’’رحم‘‘ (رشتہ داری) کو میرے نام سے مشتق کیا ہے جو اس کو جوڑے گا میں اس کو جوڑؤنگا اور جو اس کو توڑیگا اس کو میں جدا کردوں گا (بخاری ) حضرت ابوہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا جو اﷲ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ، اور جو اﷲ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو اور جو اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو چاہئے کہ وہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے ( مسلم ) آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا تین لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے جن میں سے ایک رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا ہوگا ۔ (مسند امام احمد بن حنبلؒ ) حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم مدینہ منورہ کو ہجرت فرماکر تشریف لائے تو میں نے سب سے پہلے یہ کلمات سنے ’’اے لوگو ! سلام کو عام کرو ، کھانا کھلاؤ ، صلہ رحمی کرو ، رات کو نماز پڑھو جبکہ لوگ سورہے ہوں ، تم جنت میں سلامتی سے داخل ہوجاؤ گے ‘‘ (ابن ماجہ ) حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا جس شخص کو یہ بات خوش کرتی ہو کہ اس کے رزق میں کشائش ہو اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے ( بخاری ، مسلم ) حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا شب جمعہ بنی آدم کے اعمال پیش ہوتے ہیں رشتہ داروں سے قطع تعلقی کرنے والے کے اعمال قبول نہیں کئے جاتے ( مسند احمد )

مندرجہ بالا نصوص قرآنی و احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس درندہ صفت نوجوان کے اپنے ماں باپ ، بہنوں ، بچوں اور شیرخوار کے بہیمانہ قتل کا تصور کریں کہ کس قدر بدبختی و شقاوت کا عمل اس سے سرزد ہوا ، جہاں ماں باپ ، بھائی بہنوں سے قطع تعلق کرنے پر جنت میں داخلہ سے محرومی بتائی گئی ان کیلئے بے رحمانہ قتل کی کیا سزا ہوگی ؟
عام انسان کے بارے میں بتایا گیا کہ جس نے کسی کا ناحق قتل کیا اس نے درحقیقت ساری انسانیت کاقتل کیا ۔ ( سورۃ المائدۃ ۵؍۳۲)
ترمذی شریف میں روایت ہے : اگر سارے اہل زمین و آسمان کسی ایک مومن کے خون میں شریک ہوں تو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ان سب کو دوزخ کی آگ میں جھونک دیگا ( الحدیث ) واضح رہے کہ قتل و سنگین گناہ ہے کہ قیامت کے دن اﷲ سبحانہ و تعالیٰ سب سے پہلے فیصلہ فرمائیگا( بخاری ) ارشاد الٰہی ہے : جو آدمی کسی مومن کا عمداً قتل کریگا تو اس کا بدلہ جہنم ہے ، جس میں وہ ہمیشہ رہیگا ۔ اﷲ کا غضب اور اس کی لعنت اس پر ہوگی اور اﷲ تعالیٰ اس کے لئے بڑا عذاب تیار کیا ہے ۔ ( سورۃ النساء ۴؍۹۳)