مسلم دُنیا کا بحران

کب تک یہ شکایت ظالم کی کب تک یہ اپلیں غیروں سے
ہوجائیں اگر ہم یکجا تو بحران نہ ایسے پیدا ہوں
مسلم دُنیا کا بحران
مسلم دُنیا میں مسائل کے خاتمے کے لئے متحدہ کوششوں پر ہر بااثر مسلم شخصیت زور دیتی ہے۔ عالم اِسلام کا ہر حکمراں اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے بھی اپنے مفادات کی طرف ہی مائل نظر آئے تو عالمی سطح پر مسلم اتحاد کا خواب ہرگز پورا نہیں ہوگا۔ ساری دُنیا میں صرف مسلم ممالک ہی ایسے ہیں جو بحران، خون ریزی، سیاسی مسائل، تشدد اور فاقہ کشی سے دوچار ہیں۔ عراق، شام، فلسطین، مصر، لیبیا، افغانستان اور پاکستان جیسے چند ایک نام ہیں جہاں مسلمانوں کو کمزور کرنے کی ہر گوشے سے کوشش ہوتی ہے۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود عالم اِسلام اپنی کمزوریوں سے اُبھرنے کی کوشش نہیں کرپارہا ہے۔ اب عراق میں نام نہاد مملکت اِسلامیہ تنظیم نے حالات کو ابتر کیا ہے یا مسلمانوں کے حق میں کوئی اچھا کام کرنا شروع کیا ہے، اس سے سارے عالم اِسلام کو کوئی ٹھوس پیام نہیں جاتا۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ہمیشہ آواز اُٹھائی جاتی ہے۔ کئی عالمی فورم میں اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کی مذمت کی جاتی ہے، مگر حالات جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ عالم اِسلام کی نمائندہ تنظیمیں او آئی سی، عرب لیگ کے وجود کے باوجود مسلم دشمن طاقتیں اپنے ظلم و زیادتیوں کے پہاڑ کھڑا کرتے ہیں تو عالم اِسلام کی نمائندہ شخصیتیں میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا تازہ مسئلہ عالم اِسلام کی توجہ کا متقاضی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پٹی کو تہس نہس کرنا شروع کردیا ہے۔ اب تک سینکڑوں فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ 1948ء سے اب تک مسلم دُنیا نے یہاں موت، غم، بے گھری، بے سرو سامانی، نااُمیدی کی طویل داستانیں سنی اور دیکھی ہیں۔ کئی شخصیتوں نے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی کوشش کی۔ محمود درویش کا اثر و رسوخ تھا، مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔ یاسر عرفات نے سابق صدر امریکہ بل کلنٹن کی رفاقت میں اُس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود براک سے بات چیت کرنے کے لئے بندوق چھوڑکر شاخِ زیتون تھام کر قدم اُٹھائے تھے، مگر امن کو ترس کر اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔ اسرائیل کی جارحیت ختم نہیں ہوئی بلکہ اس نے فلسطینیوں کو ان کی ہی زمین پر کھلی جیل میں تبدیل کرکے ہر روز ظلم و زیادتیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا۔ فلسطینیوں کو آزادی دلانے کی خاطر حماس نے بندوق اُٹھالی تو مسائل مزید سنگین ہوتے گئے۔ اس وقت عالم اِسلام میں ایسی کوئی مضبوط سیاسی طاقت نہیں ہے۔ سوال اُٹھ رہا ہے کہ تنظیم اِسلامی کانفرنس کا وجود کہاں ہے؟ عراق میں اِسلامی حکومت کا دعویٰ کرنے والی تنظیم اسرائیل کے معاملہ میں خاموش کیوں ہے؟ آیا ان تنظیموں کے تعلق سے پیدا ہونے والے شبہ کو تقویت ملے گی کہ یہ تنظیمیں دراصل مغربی طاقتوں کے اشاروں پر کام کررہی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ان کی آواز میں دم خم کیوں نہیں ہے؟ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کے واقعات پر مغربی طاقتیں امن پسند عوام کی نمائندہ حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی موجودگی وحشیانہ اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف بیدار کرنے میں ناکام ہورہی ہے تو پھر اقوام کا حال تباہ کن ہوگا۔ ساری دُنیا میں اُمت ِ مسلمہ کی موجودہ حالت پر بہت سے لوگ فکرمند و پریشان ضرور ہیں، کچھ سمجھ دار اور اُمت کی خوشی اور خوشنودی کے لئے کام کرنے کا جذبہ ظاہر کرتے ہیں، مگر موجودہ اُمت ِ مسلمہ کی نسل کو درپیش مسائل سے چھٹکارا دلانے کا کوئی تیر بہدف نسخہ تیار نہیں کیا گیا۔ سب سے پہلے اِسلام دشمن طاقتوں کو ناکام بنایا جائے تو اُمت ِ مسلمہ کے کئی مسائل ازخود حل ہوں گے۔ مسلم دُنیا میں پائی جانے والی بے چینی اور بحران کی کیفیت دُور کرنے کا راستہ مملکت اِسلامیہ جیسی تنظیمیں تو نہیں ہوسکتیں، تو مسلم دُنیا کی حالت کو تبدیل کرنے کے لئے کس قسم کی محنت شاقہ کی ضرورت ہے، اس پر دانشورانہ، عالمانہ اور سیاسی زاویے سے غور کرنے، عملی اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔ مسلم دُنیا کے سیدھے سادھے مخلص مسلمانوں کو ایسی تنظیموں اور طاقتوں سے چوکس رہنا چاہئے جو ان کی صفوں میں رہ کر مسلم دُنیا یا اُمت ِ مسلمہ کو کمزور کررہی ہیں۔ جو لوگ اِسلام کی خدمت کے نام پر یہودیوں، صیہونیوں کی مدد کررہے ہیں، ان کا خاتمہ اولین شرط ہے۔ مسلم معاشرہ کے ساتھ ساتھ آج امن و سلامتی، استحکام کا مسئلہ ہر قوم کے لئے اہم ہے۔ اس لئے تمام اقوام کو کسی ایک قوم کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں، ظلم و جبر کے خلاف آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ فلسطین میں حماس کی طاقت اسرائیل کو کس حد تک نقصان پہنچا سکے گی؟ اس کا اندازہ کئے بغیر اگر حماس کو یوں ہی کمزور مظاہرے کے لئے چھوڑ دیا گیا تو اس بہانے سے اسرائیل اپنی پوری طاقت کے ساتھ فلسطینی بستیوں کو تباہ کردے گا۔ حماس کے راکٹ حملے اسرائیل کے لئے صرف کھلونے ثابت ہورہے ہیں۔ اس طرح کے کھلونے عالم اِسلام کے مستقبل کو مضبوط نہیں بناسکتے۔ گزشتہ پانچ سال میں حماس کی یہ تیسری لڑائی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل صرف عام شہریوں کو نشانہ بنارہا ہے۔ معصوم بچوں، خواتین کو ہلاک کردیا جارہا ہے۔ مغربی میڈیا اسرائیل کی اس کارروائی کو درست قرار دے کر 3 یہودی طالب علموں کے قتل کا بدلہ قرار دے رہی ہے۔ اس طرح کی میڈیا کی پھیلائی گئی سوچ کے بہت خراب اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی نفی کرنا ضروری ہے۔