مسلم تحفظات فراموش، کے سی آر کو اعلیٰ طبقات کی فکر

معاشی پسماندہ اعلیٰ ذات کے افرادکو تحفظات،قانونی ماہرین کی رائے کا حصول
حیدرآباد ۔ 28 ۔ مئی (سیاست نیوز) کے سی آر کی زیر قیادت ٹی آر ایس حکومت گزشتہ چار برسوں میں مسلم تحفظات پر عمل آوری میں ناکام ہوچکی ہے لیکن اب حکومت کو اعلیٰ طبقات کی فکر لاحق ہوچکی ہے۔ چیف منسٹر اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے معاشی طور پر کمزور خاندانوں کو تعلیم و روزگار میں تحفظات فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس کیلئے موجودہ تحفظات میں اضافہ کے بجائے ایس سی ، ایس ٹی ، بی سی اور اقلیتی طبقات کے خوشحال طبقہ کو تحفظات کے زمرہ سے علحدہ کرتے ہوئے اعلیٰ طبقات کو گنجائش فراہم کی جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر نے اس مسئلہ پر قانونی ماہرین کی رائے حاصل کی ہے تاکہ عدالتی کشاکش سے بچا جاسکے ۔ حکومت نے مسلمانوں کو 12 فیصد اور درج فہرست قبائل کو 10 فیصد تحفظات فراہم کرتے ہوئے اسمبلی میں قانون سازی کی تھی جس کے نتیجہ میں ریاست میں مجموعی تحفظات 50 سے 62 فیصد ہوجائیں گے۔ مرکز نے تحفظات میں اضافہ کی تجویز کو نامنظور کردیا۔ کے سی آر نے مرکز کی جانب سے بل کی نامنظوری کی صورت میں سپریم کورٹ سے رجوع ہونے اور ٹاملناڈو کی طرز پر 9 ویں شیڈول میں تحفظات کو شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مرکز سے نامنظوری کے تین ماہ گزرنے کے باوجود کے سی آر حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ ابھی تک سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ درج فہرست اقوام و قبائل اور پسماندہ طبقات اپنے موجودہ تحفظات سے مطمئن نہیں ہے لیکن چیف منسٹر کو اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے افراد سے ہمدردی پیدا ہوچکی ہے۔ ملک میں کسی بھی ریاست نے اعلیٰ طبقات کو تحفظات فراہم نہیں کئے لیکن چیف منسٹر کے سی آر نے 7 مئی کو رعیتو بندھو اسکیم کے آغاز کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے معاشی طور پر کمزور خاندانوں کیلئے خصوصی پالیسی کا اعلان کیا جائے گا ۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر نے اعلیٰ ذاتوں کیلئے ای بی سی زمرہ کے تحت تحفظات فراہم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ معاشی طور پر کمزور اعلیٰ طبقات کے خاندانوں کو ایس سی ، ایس ٹی ، بی سی اور مسلم تحفظات میں کٹوتی کرتے ہوئے تحفظات فراہم کئے جائیں گے۔ حکومت مسلمانوں اور ایس ٹی طبقہ کیلئے اضافی تحفظات فراہم کرنے میں پہلے ہی ناکام ہوچکی ہے اور اب موجودہ تحفظات میں کمی کا منصوبہ ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ چیف منسٹر پہلے مرحلہ میں اعلیٰ ذات کو تعلیم کے شعبہ میں تحفظات کے حق میں ہیں بعد میں روزگار میں گنجائش فراہم کی جائے گی۔ بی سی ، ایس سی ، ایس ٹی اور اقلیت میں خوشحال طبقہ کو تحفظات کے فوائد سے علحدہ کیا جاسکتا ہے، جن کی سالانہ آمدنی 8 لاکھ سے زائد ہے۔ ان کی جگہ معاشی طور پر پسماندہ اعلیٰ ذات کے افراد کو تحفظات فراہم کئے جائیں گے۔ حکومت موجودہ 50 فیصد کی حد سے تجاوز کئے بغیر داخلی سطح پر گنجائش فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے مجموعی تحفظات کی حد 50 فیصد مقرر کی ہے۔ اپریل 2017 ء کو منظورہ قانون کے مطابق مسلمانوںکے موجودہ 4 فیصد تحفظات کو 12 فیصد اور درج فہرست قبائل کے 6 فیصد کو بڑھاکر 10 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ چیف منسٹر نے کابینی رفقاء سے اس مسئلہ پر مشاورت کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے افراد معاشی پسماندگی کے سبب مسائل کا شکار ہیں۔ وہ تحفظات کے فوائد سے استفادہ نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا طبقہ اعلیٰ ذات کی فہرست میں شامل ہے۔ اس طرح کے خاندانوں کو تعلیم اور روزگار میں تحفظات کی فراہمی ضروری ہے۔ چیف منسٹر نے ای بی سی کوٹہ پر عمل آوری کے سلسلہ میں قانونی ماہرین سے رائے طلب کی ہے۔ سابق میں بعض حکومتوں نے ای بی سی کوٹہ پر عمل آوری کی کوشش کی تھی لیکن عدالتوں میں اس کوشش کو کالعدم کردیا تھا ۔ چیف منسٹر کو چاہئے کہ وہ اعلیٰ طبقات کی فکر کرنے سے پہلے مسلمانوں سے کئے گئے وعدہ کی تکمیل کی کوشش کریں کیونکہ 90 فیصد سے زائد مسلمان پسماندہ ہیں جس کا اعتراف بی سی کمیشن اور سدھیر کمیشن آف انکوائری نے کیا ہے۔