مسلمان اور وزیراعظم کا تبصرہ

لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
مسلمان اور وزیراعظم کا تبصرہ
وزیر اعظم نریندر مودی نے آج دین دیال اپادھیائے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے مسلمانوں کو ووٹ مارکٹ کی شئے یا ووٹ بینک نہیں سمجھا جانا چاہئے ۔ زبانی طور پر مسلمانوں سے ہمدردی کی وزیر اعظم کی کوشش کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس سے قبل بھی بہت کم موقعوں پر ہی صحیح انہوں نے مسلمانوں سے ہمدردی ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی اور ان میں اپنا امیج بہتر بنانے کی کوشش کی تھی لیکن ایسا کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے تھے ۔ گجرات کے فسادات کے بعد جو امیج ان کی ملک کے مسلمانوں میں بن گئی ہے یا دانستہ طور پر بنائی گئی ہے وہ اتنی آسانی سے بہتر ہونے والی نہیں ہے ۔ اب چونکہ ملک کی سب سے بڑی اور حساس ریاست اتر پردیش میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں اور اس ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے بی جے پی ہر ممکن جدوجہد کر رہی ہے ایسے میں وزیر اعظم کی جانب سے یہ ریمارک انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ ویسے بھی انہوں نے جس ریاست میں یہ ریمارک کیا ہے وہ کیرالا ہے ۔ یہاں بھی مسلمان خاصی تعداد میں موجود ہیں اور وہاں بھی بی جے پی 2019 کے لوک سبھا انتخابات کیلئے منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی قومی کونسل کا اجلاس کوذی کوڈ میں رکھا گیا ہے ۔ گجرات اور پنجاب میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں بھی مسلمانوں کے ووٹ اہمیت رکھتے ہیں اور انہیں کو پیش نظر رکھتے ہوئے نریندر مودی نے یہ ریمارک کیا ہے ۔ انہوں نے جو ریمارک کیا ہے وہ عملا اسی کے خلاف عمل پیرا ہیں ۔ محض ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر انہوں نے اپنے امیج کو بہتر بنانے کا مسلمانوں کو رجھانے کی کوشش شروع کی ہے ۔ ملک کی آزادی کے بعد سے تقریبا تمام حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کیا ہے اور کسی نے سنجیدگی سے مسلمانوں کی ترقی کیلئے یا ان کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی کام نہیں کیا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ہر ایک نے مسلمانوں کی پسماندگی میں ضرور اپنا اپنا رول ادا کیا ہے ۔ مسلمانوں کو حاشیہ پرکرنے کیلئے جس جماعت سے جو کچھ بن سکتا تھا اس جماعت نے وہ ضرور کیا ہے ۔
آج وزیر اعظم کو مسلمانوں کے ووٹ بینک نہ ہونے کا احساس ہو رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ احساس کیا جائے کہ مسلمان اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری نہیںہیں۔ یہ حقیقت قبول کی جائے کہ اس ملک میں مسلمانوں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا دیگر ابنائے وطن کا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو ان کا جائز حق دیا جائے ۔ ان کے ساتھ مساوات کا سلوک کیا جائے ۔ ان کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے اتنی ہی سنجیدگی سے کوششیں کی جائیں جتنی دوسری اقوام کیلئے کی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کا وقار اس ملک میں بحال کیا جانا چاہئے ۔ ان کی عظمت رفتہ کو بحال کیا جانا چاہئے اسی وقت کسی حکومت یا کسی سیاسی جماعت کی سنجیدگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اسی وقت ان جماعتوں یا حکومتوں یا حکمرانوں کی بیان بازیوں کو اہمیت کی نظر سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ ویسے تو ملک کی تقریبا ہر جماعت کے قائدین اور ہر حکومت کے سربراہ اور نمائندے اکثر و بیشتر موقعوں پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کیلئے ان سے دلخوش کن وعدے کرتے رہے ہیں۔ انہیںسبز باغ دکھاتے رہے ہیں اور ان کا سیاسی استحصال کیا جاتا رہا ہے ۔ یہ سلسلہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے چل رہا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ آج اس ملک میں ‘ جو مسلمانوں نے اپنے خون پسینے سے سینچا ہے ‘ وہ پسماندہ طبقات سے بھی ابتر حالت میں ہیں۔ اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں سے دوسرے درجہ کے شہری جیسا سلوک کیا جا رہا ہے جبکہ ملک کے دستور میںہر مذہب کے ماننے والوں کو برابر کے حقوق دئے گئے ہیں۔
جس دستور میں مسلمانوں کو برابر کے حقوق ہیں اور ان سے انصاف کی گنجائش فراہم کی گئی اس کی غلط تاویل پیش کرتے ہوئے توڑ مروڑ پر پیش کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جاتا ہے ۔ چاہے نریندر مودی ہوں یا بی جے پی کے دوسرے قائدین یا دوسرے مرکزی وزرا ہوں سبھی کو یہ حقیقت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ مخالفانہ روش خود انہوں نے اختیار کی تھی اور وہ مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ اگر انہیں واقعی مسلمانوں سے ہمدردی ہے تو سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل آوری کیلئے ایکشن پلان تیار کیا جائے ۔ ایک جامع حکمت عملی تیار کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کی حالت بدلنے کیلئے اقدامات کئے جائیں ‘ انہیں تعلیمی‘ معاشی اور سماجی میدان میں با اختیار بنایا جائے ۔ اس سے قبل صرف زبانی جمع خرچ سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ۔