مسلمانوں کیساتھ حق تلفی، انصاف رسانی کی ضرورت

آبادی کی مناسبت سے تحفظات پرزور، ایم ویدا کمار

حیدرآباد۔یکم مارچ(سیاست نیوز) علیحدہ تلنگانہ ریاست کی جدوجہد استحصال اور ناانصافیوں کے خلاف تھی اور علاقہ تلنگانہ میںپسماندگی کاشکار طبقات کو اس تحریک سے امیدیں بھی وابستہ ہیں بالخصوص پچھلے ساٹھ سالوں میں منظم سازش کے تحت جن طبقات کو پسماندگی میں ڈھکیل دیا گیا ان میں سرفہرست علاقہ تلنگانہ کے مسلمان ہیںجن کو علیحدہ ریاست تلنگانہ میں انصاف ملنے کا یقین بھی ہے۔سماجی جہدکار ‘چیرمن تلنگانہ ریسور س سنٹرو نائب صدر تلنگانہ پرجافرنٹ مسٹر ایم ویدا کمار نے ایک انٹرویو میں یہ بات کہی۔ انہوں نے کہاکہ پسماندہ طبقات کودرپیش مسائل کے حل میں برسراقتدار حکومتوں کی سنجیدگی ضروری ہے بالخصوص علاقہ تلنگانہ میں ایس سی‘ ایس ٹی‘ بی سی اور مسلم اقلیت کی حالت زار کو تبدیل کرنے میں جو وعدے حکومتوں کے علاوہ علاقائی اور قومی جماعتوں نے مسلمانوں سے کئے ہیں ان پر عمل آواری ہی مذکورہ طبقات کودرپیش مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ تلنگانہ تحریک کے دوران سال 2004 کے انتخابات میںکانگریس ٹی آر ایس اتحاد نے علاقہ تلنگانہ کے مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے تحفظات فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اور سال 2009کے انتخابات میں تلگودیشم ٹی آر ایس اتحادی انتخابی منشور میں بھی علاقہ تلنگانہ کے مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے تحفظات کی فراہمی کا اعلان کیاگیااس کے علاوہ تلنگانہ راشٹرایہ سمیتی کے سربراہ کے چندرشیکھر رائو نے اپنی تیرہ سالہ تلنگانہ جدوجہدمیں علاقہ تلنگانہ کے مسلمانوں کو بارہ فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے

۔انہوں نے کہاکہ علاقہ تلنگانہ کے مسلمانو ں کو بارہ فیصد نہیں بلکہ آبادی کے تناسب سے زندگی کے تمام شعبوں میںتحفظات کی ضرورت ہے انہوں نے کہاکہ علیحدہ ریاست تلنگانہ میںمسلمانوں کی آبادی کا تناسب بارہ سے بڑھ کر سترہ فیصد ہوجائے گا لہذا علاقہ تلنگانہ میںبرسراقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ علاقہ تلنگانہ کے مسلمانوں کوتمام شعبہ حیات میں کم ازکم پندرہ فیصد تحفظات فراہم کرے بلکہ ان تحفظات اور مرعات سے مسلمانوں کی حالت زار میں تبدیلی کے لئے مثبت حکمت عملی بھی تیار کرے ۔ مسٹر ویدا کمار نے مجوزہ تلنگانہ ریاست میںمسلمانوں کوعلیحدہ سب پلان کی فراہمی کو بھی ضروری قراردیا۔ انہوں نے کہاکہ علیحدہ بجٹ اور سب پلان کے ذریعہ مسلمانو ں کے ساتھ سماجی انصاف کو یقینی بنایا جاسکے گا۔انہو ں نے لینڈریفرس میں بھی مسلمانوں کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ تقسیم ہند اور آپریشن پولو و پولیس ایکشن کے بعد منظم انداز میں تلنگانہ کے مسلمانوں کو ہراساں پریشان کیا گیا جس کے سبب وہ اپنی لاکھوں ایکڑ قیمتی اراضیات چھوڑ کر تلنگانہ سے بھاگنے پر مجبو ر ہوگئے۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ ریاست آندھرا پردیش کے قیام سے قبل جن مسلمانوں کاشمار سرمائے دار‘ جاگیردار‘ منصب دار میں کیا جاتا تھا مگر پچھلے ساٹھ سالوں میں تلنگانہ کے مسلمانوں کے ساتھ مسلسل ناانصافی اور حق تلفی کے سبب وہ زندگی کے تمام یہ شعبوں میں پسماندگی کی زندگی گذارنے پر مجبو ر ہوگئے۔انہوں نے اقلیتوں کے لئے جاری کئے جانے والے بجٹ کا بھی اس موقع پر حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ بجٹ کا اعلان تو کیا جاتا ہے مگر اس کو خرچ کرنے میں متعصب پسند عہدیداروں کا رویہ مسلمانو ں کو حکومت کی معلنہ رعایتوں سے محروم رکھنے کی وجہہ بھی بن رہا ہے۔

انہوں نے شہری حدود میں پچاس سے زائد ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے کو ضروری قراردیا جہاں پر مسلمانوں کو مفت تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ بنیادی تعلیم کے علاوہ اعلی تعلیم کے حصول میں بھی تلنگانہ کے مسلمانوں کو تلنگانہ کے دیگر طبقات کے ساتھ مساوی موقع مل سکے۔انہوں نے اُردو زبان کے فروغ کے لئے عثمانیہ یونیورسٹی کے طرز پر خالص اُرد ویونیورسٹی قائم کرنے کا بھی مجوز ہ ریاست میں برسراقتدار آنے والی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ تلنگانہ کے تمام اضلاع میںمذکورہ یونیورسٹی کے مراکز قائم کرتے ہوئے علاقہ تلنگانہ میں مکمل طور پر اُردو کو دوسری سرکاری زبان کادرجہ فراہم کیا جائے تاکہ اُردو داں طبقہ کو احساس کمتری سے باہر لایا جاسکے۔