ٹی ایس سدھیر کمیٹی کی اہمیت نہیں، بی سی کمیشن کی تشکیل ضروری : محمد علی شبیر
حیدرآباد۔/9جون، ( سیاست نیوز) تلنگانہ قانون ساز کونسل میں قائد اپوزیشن محمد علی شبیر نے ٹی آر ایس حکومت پر مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات کی فراہمی میں غیر سنجیدہ ہونے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ممتاز قانون داں اور سابق جج ہائی کورٹ جسٹس سدرشن ریڈی کے اس بیان سے حکومت کی غیرسنجیدگی کا ثبوت ملتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بی سی کمیشن کی تشکیل کے بغیر تحفظات کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ جسٹس سدرشن ریڈی کے خیالات سے سابق میں ان کی جانب سے ظاہر کئے گئے موقف کی تصدیق ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحفظات کی فراہمی کے وعدے کے بعد ٹی آر ایس حکومت نے کبھی بھی اس سلسلہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ جسٹس سدرشن ریڈی نے حکومت کی جانب سے تحفظات کی فراہمی کے سلسلہ میں تشکیل دی گئی ٹی ایس سدھیر کمیٹی کی اہمیت کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ یہ کمیٹی تحفظات کی فراہمی کیلئے سفارش پیش نہیں کرسکتی۔ محمد علی شبیر نے وضاحت کی کہ جس وقت کانگریس حکومت نے 5فیصد تحفظات فراہم کئے تھے، جسٹس سدرشن ریڈی کی قیادت بنچ نے یہ کہتے ہوئے حکومت کے فیصلہ کو کالعدم کردیا تھا کہ تحفظات کی فراہمی کیلئے بی سی کمیشن کی تشکیل ضروری ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس سدرشن ریڈی نے مجموعی تحفظات 50فیصد سے زائد ہونے پر 5فیصد کی مخالفت کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے تمام مسلمانوں کو تحفظات کے بجائے پسماندگی کا جائزہ لینے کے بعد اس کی بنیاد پر تحفظات کی فراہمی کی تائیدکی تھی۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ آج بھی ٹی آر ایس حکومت حقائق کو جانتے ہوئے اقلیتوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ بار بار مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات کا تیقن دیتے ہوئے انہیں ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اپوزیشن قائد نے کہا کہ حکومت نے ریٹائرڈ آئی اے ایس عہدیدار کی صدارت میں جو کمیٹی تشکیل دی ہے اس کی کوئی قانونی اور دستوری اہمیت نہیں اور اس کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر تحفظات کی فراہمی کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں کسی بھی طبقہ کو تحفظات کی فراہمی کی سفارش صرف پسماندہ طبقات کمیشن ہی کرسکتا ہے۔ کانگریس حکومت نے بھی 4فیصد تحفظات کی فراہمی کیلئے ریٹائرڈ ہائیکورٹ جج کی صدارت میں پسماندہ طبقات کمیشن قائم کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سدھیر کمیٹی کی تشکیل صرف اقلیتوں کی دلجوئی کی کوشش ہے اور اس سے حکومت مسئلہ کو مزید ٹالنے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا لیکن ابھی تک تحفظات کی فراہمی کے سلسلہ میں کوئی بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل اور پھر حکومت کی تشکیل کے بعد ٹی آر ایس نے اقلیتوں سے جو وعدے کئے تھے ان پر عمل آوری نہیں کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں گزشتہ سال جو رقم مختص کی گئی اس میں سے 75فیصد رقم خرچ نہیں کی جاسکی اور وہ سرکاری خزانہ میں واپس ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اقلیتوں اور اردو کے بارے میں ہمدردی کے بیانات تو دیتے ہیں لیکن انہوں نے عمل آوری میں سنجیدگی کا ثبوت کبھی بھی نہیں دیا۔