نئی دہلی 28 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) مرکز نے آج سپریم کورٹ سے اُس کے مبینہ تبصرے پر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ اِس کی وجہ سے منی پور میں پولیس ارکان عملہ کو قاتل قرار دیا گیا ہے جو مبینہ طور پر جعلی انکاؤنٹر مقدمات میں ملزم قرار دیئے گئے ہیں۔ عدالت نے کہاکہ وہ پوری طرح ہل کر رہ گئی ہے۔ مسلح افواج کی اور شورش زدہ علاقہ میں صیانتی افراد کی اِس عدالتی تبصرے سے حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ حکومت نے جسٹس مدن بی لوکر اور دیپک گپتا پر مشتمل ایک بنچ کے اجلاس پر بیان دیتے ہوئے کہاکہ منی پور پولیس ارکان عملہ کی داخل کردہ چند درخواستوں کی تائید کی جاتی ہے جن میں بنچ کی جانب سے منی پور جعلی انکاؤنٹر مقدمہ کی سماعت سے سی بی آئی کے خصوصی تحقیقاتی ٹیم ایس آئی ٹی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جو تحقیقات کررہی ہے تاہم درخواست گذاروں نے حکومت کے اِس ادعا کو چیلنج کیاکہ یہ عدالت پر غلبہ پانے کی ایک کوشش ہے۔ وہ مقدمہ کی سماعت سے دستبردار نہیں ہوگی۔ عدالت مفاد عامہ کی درخواست کی سماعت کررہی ہے جس میں 1528 مقدمات کی تحقیقات کی درخواست کی گئی ہے اور منی پور میں مبینہ طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں سے یہ مقدمات متعلق ہیں۔ گزشتہ سال 14 جولائی کو ایس آئی ٹی سی بی آئی کی جانب سے تشکیل دی گئی تھی اور اس نے ایف آئی آر درج کرنے اور اِن کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ پولیس ملازمین کے علاوہ 300 سے زیادہ فوجیوں نے بھی اعلیٰ عدالت سے ربط پیدا کرکے اُن کے خلاف منی پور میں کارروائیوں پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے جن کو اِن افراد نے چیلنج کیا۔ جموں و کشمیر میں بھی مسلح افواج (خصوصی اختیارات) قانون (افسپا) ایک طاقت سے کم نہیں۔ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے عدالت کی بنچ سے کہاکہ اُنھیں یونین آف انڈیا کی ہدایت مل چکی ہے کہ وہ مفاد عامہ کی درخواستوں کی تائید کررہی ہے جو بنچ کی جانب سے اِن درخواستوں کی سماعت دوسری عدالت کو منتقلی کی خواہاں ہے۔ جہاں تک منی پور میں فوج کا تعلق ہے اُنھیں شورش پسندی کا مقابلہ کافی مشکل معلوم ہورہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے فوج اور پولیس کے بعض ارکان عملہ کو مجرم قرار دینے پر بھی اعتراض کیا جنھیں منی پور میں افسپا کے استعمال پر مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ نہیں سمجھ سکتے کہ اُنھیں استغاثہ کا سامنا کرنے کے لئے کیوں کہا جارہا ہے۔ اے جی نے فوج اور پولیس کے ارکان عملہ کو استغاثہ کی جانب سے ملزم قرار دینے پر بھی اعتراض کیا کیوں کہ وہ اُن علاقوں میں کارروائیاں کررہے تھے جہاں فوج کا خصوصی اختیارات قانون نافذ ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ استغاثہ کا فوج کو سامنا کرنا پڑرہا ہے جبکہ جن علاقوں میں وہ کارروائی کررہے تھے وہاں افسپا نافذ ہے جس کے تحت اُنھیں استغاثہ کا سامنا کرنے سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ جسٹس للت نے 30 جولائی کو مفاد عامہ کی درخواستوں کو سماعت کے دوران سی بی آئی کے ڈائرکٹر کو عدالت میں حاضر رہنے کی ہدایت دی تھی اور اُن کی حاضری کو ارکان عملہ کے مقدمے سے متعلق بتایا تھا۔ مبینہ طور پر عدالت کی بنچ نے اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ قاتل آزادانہ طور پر گھوم رہے ہیں۔ اس تبصرے سے فوج اور پولیس کے ارکان عملہ کی حوصلہ شکنی ہوئی تھی کیوں کہ یہ لوگ وطن کے لئے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔